بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بچوں کو ملنے والی عیدی کا حکم


سوال

میرے ایک عزیز اپنے بالغ و نابالغ بچوں کی عیدی ان سے لے لیتے ہيں اور دو تين دن بعد ان کو ان کی پسند کی چیز دلا دیتے ہیں،  اب چاہے وہ عیدی سے کم ہو یا زیادہ ، بعض دفعہ بچوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ انکی عیدی کتنی جمع ہوئی ہے اور بچے اپنے والد کو دینے سے منع بھی نہیں کر سکتے تو کیا والد کا یہ کرنا صحیح ہے؟

جواب

بچوں کو جو رقم انعام یا عیدی کے طور پر دی جاتی ہے وہ رقم بچے کی ملک ہوتی ہے، کسی اور شخص کا اس رقم کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہوتا، بچے کے اپنے مصارف میں اس کو خرچ کیا جا سکتا ہے، بچے کے کپڑے بھی لیے جا سکتے ہیں اور اس کے اسکول کی فیس بھی ادا کی جا سکتی ہے۔لہذا اگر ان کے والد وہ رقم بچوں پر ہی خرچ کر دیتے ہیں تو یہ جائز ہے۔

الأشباه والنظائر میں ہے:

"وإذا أهدي للصبي شيء وعلم أنه له فليس للوالدين الأكل منه بغير حاجة كما في الملتقط."

(الفن الثالث، احکام الصبی ،  ص: 264،دار الکتب العلمیۃ)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"قال الفقيه أبو الليث - رحمه الله تعالى -: إن كانت الهدية مما يصلح للصبي مثل ثياب الصبي أو شيء يستعمل للصبيان فهي للصبي، وإن كانت الهدية دراهم أو دنانير أو شيئا من متاع البيت أو الحيوان، فإن أهداه أحد من أقرباء الأب أو من معارفه فهي للوالد إذا اتخذ الرجل عذيرة للختان فأهدى الناس هدايا ووضعوا بين يدي الولد فسواء قال المهدي هذا للولد أو لم يقل، فإن كانت الهدية تصلح للولد، مثل ثياب الصبيان أو شيء يستعمله الصبيان مثل الصولجان والكرة فهو للصبي؛ لأن هذا تمليك للصبي عادة، وإن كانت الهدية لا تصلح للصبي عادة كالدراهم والدنانير ينظر إلى المهدي، فإن كان من أقارب الأب أو معارفه فهي للأب، وإن كان من أقارب الأم أو معارفها فهي للأم؛ لأن التمليك هنا من الأم عرفا وهناك من الأب فكان التعويل على العرف حتى لو وجد سبب أو وجه يستدل به على غير ما قلنا يعتمد على ذلك."

(الفتاوى الهندية،كتاب الهبة، الباب الثالث فيمايتعلق بالتحليل، 383/4،رشيديه)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144310100059

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں