آج کل بچہ پیداکرنے کے لیے جو بے بی ٹیسٹ ٹیوب کاطریقہ اختیار کیا جاتا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ آیا کہ اس طرح پیدا ہونے والا بچہ لےپالک ہو گا یا حقیقی؟
اولاد کا حصول نعمتِ خداوندی ہے، لیکن اللہ تعالی کے ہاں طے شدہ مقدر کے مطابق ہے ،اس نعمت کے حصول کے لیے مردکواللہ تعالیٰ نے چارعورتوں کو بیک وقت نکاح میں جمع کرنے کی اجازت دی ہے،لہٰذا اگر بیوی میں ولادت سے مانع مرض ہے تو دوسری شادی کرلی جائے، ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے ذریعےاولاد کی پیدائش غیرفطری طریقہ ہے،جس میں کبھی غیر مرد کا مادہ منویہ یا اجنبی عورت کا رحم استعمال کیا جاتاہے اور کبھی شوہرکا مادہ منویہ اوراس کے جرثومےغیر فطری طریقے مثلاً جلق وغیرہ کے ذریعے سے حاصل کرکے غیر فطری طریقے سے بیوی کے رحم میں ڈالے جاتے ہیں، مرد کا مادہ منویہ اور عورت کابیضہ ملا کرٹیوب میں کچھ مدت کے لیے رکھ لیے جاتے ہیں ، پھر انجکشن کے ذریعے رحم میں پہنچا دیے جاتے ہیں ، اور اس کے پہنچانے کا عمل (عموماً) اجنبی مرد یا عورت سرانجام دیتے ہیں جوشرعاً جائزنہیں ہے ،اس لیے اس سے اجتناب لازمی ہے۔
البتہ اگر کسی ڈاکٹر سے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا طریقہ کار معلوم کرکے شوہر اپنا مادہ منویہ خود یا بیوی اپنے شوہر کا مادہ منویہ اپنے رحم میں داخل کرے اور اس میں کسی تیسرے فرد کا بالکل عمل دخل نہ ہو (یعنی کسی مرحلے میں بھی شوہر یا بیوی میں سے کسی کا ستر کسی مرد یا عورت کے سامنے نہ کھلے، نہ ہی چھوئے) تو اس کی گنجائش ہوگی۔
پھر اِس صورت میں (یعنی جواز کی صورت میں) جو بچہ پیدا ہو گا وہ حقیقی ہو گا اور اُس پر حقیقی بچوں والے احکام ہی لاگو ہوں گے، نہ کہ لے پالک کے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144211201269
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن