بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بعض وہ کام جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا


سوال

1۔کیا روزہ کی حالت میں جسم کی صفائی کرنا مردوں کے لئے جائز ہے یا نہیں؟

2۔کیا روزہ کی حالت میں اگر  خون نکل جائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟

3۔کیا روزہ کی حالت میں گندا خواب دیکھنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

4۔کیا روزہ کی حالت میں تھوک نگلنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے؟

جواب

1۔ روزہ کی حالت میں جسم کی صفائی کرنا مرد و عورت دونوں  کے لئے جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

2۔ روزہ کی حالت میں اگر   جسم کے بیرونی حصہ سے خون نکل جائے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا اور اگر  روزے کی حالت میں دانت سے خون نکلا، لیکن حلق سے نیچے نہیں اترا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا، لیکن اگر دانتوں سے خون نکل کر تھوک کے ساتھ مل کر حلق سے نیچے اتر گیا  تو دیکھا جائے گا کہ خون غالب ہے یا نہیں،  اگر خون غالب ہوا (اس طور پر کہ خون کا ذائقہ محسوس ہوجائے یا خون کی مقدار تھوک کی مقدار سے زیادہ یا اس کے برابر ہو) تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس روزے کی قضا لازم ہوگی، اور اگر خون غالب نہ ہو بلکہ تھوک غالب ہو (اس طور پر کہ نہ تو خون کا ذائقہ محسوس ہو اور خون کی مقدار تھوک کی مقدار سے کم ہو) تو اس صورت میں روزہ نہیں ٹوٹے گا۔

3۔ روزہ کی حالت میں اگر کوئی شخص  گندا خواب دیکھےتو اس  سے روزہ  نہیں ٹوٹتا۔

4۔ روزہ کی حالت میں تھوک نگلنا جائز ہے ، اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا، البتہ تھوک جمع کرکے نگلنا مکروہ ہے۔

البحر الرائق میں ہے :

"الصوم في الشرع الامساك عن المفطرات الثلاث حقيقةّ او حكماّ في وقت مخصوص من شخص مخصوص مع النية."

(البحر الرائق، ج:2، ص:259، ط:سعيد)

فتاوی شامی میں ہے :

"قوله: "و تنظيف بدنه " بنحو ازالة الشعر من ابطه ، ويجوز فيه الحلق و النتف اوليٰ."

( رد المختار ، ج:6، ص:406، ط:سعید )

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے :

"(أو خرج الدم من بين أسنانه ودخل حلقه) يعني ولم يصل إلى جوفه أما إذا وصل فإن غلب الدم أو تساويا فسد وإلا لا، إلا إذا وجد طعمه، بزازية. و استحسنه المصنف وهو ما عليه الأكثر و سيجيء.

(قوله: يعني ولم يصل إلى جوفه) ظاهر إطلاق المتن أنه لايفطر وإن كان الدم غالبا على الريق وصححه في الوجيز كما في السراج. و قال: ووجهه أنه لايمكن الاحتراز عنه عادة فصار بمنزلة ما بين أسنانه وما يبقى من أثر المضمضة كذا في إيضاح الصيرفي. اهـ. ولما كان هذا القول خلاف ما عليه الأكثر من التفصيل حاول الشارح تبعا للمصنف في شرحه بحمل كلام المتن على ما إذا لم يصل إلى جوفه؛ لئلا يخالف ما عليه الأكثر. قلت: ومن هذا يعلم حكم من قلع ضرسه في رمضان ودخل الدم إلى جوفه في النهار ولو نائما فيجب عليه القضاء إلا أن يفرق بعدم إمكان التحرز عنه فيكون كالقيء الذي عاد بنفسه فليراجع (قوله: واستحسنه المصنف) أي تبعا لشرح الوهبانية حيث قال فيه وفي البزازية قيد عدم الفساد في صورة غلبة البصاق بما إذا لم يجد طعمه وهو حسن. اهـ. (قوله: هو ما عليه الأكثر) أي ما ذكر من التفصيل بين ما إذا غلب الدم أو تساويا أو غلب البصاق هو ما عليه أكثر المشايخ كما في النهر (قوله: وسيجيء) أي ما استحسنه المصنف حيث يقول: وأكل مثل سمسمة من خارج يفطر إلا إذا مضغ بحيث تلاشت في فمه إلا أن يجد الطعم في حلقه اهـ. ولا يخفى ما في كلامه من تشتيت الضمائر كما علمت."

(ج:2، ص:396، ط: سعید)

فتاوى هندیہ میں ہے :

"الدم إذا خرج من الأسنان ودخل حلقه إن كانت الغلبة للبزاق لايضره، وإن كانت الغلبة للدم يفسد صومه، وإن كانا سواء أفسد أيضاً استحساناً."

(ج:1، ص:203ِ ط: سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وَيُكْرَهُ لِلصَّائِمِ أَنْ يَجْمَعَ رِيقَهُ فِي فَمِهِ ثُمَّ يَبْتَلِعَهُ كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ".

(ج: 1، ص:199، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100123

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں