بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بعض مقتدیوں کا امام کو تنگ کرنا


سوال

امام کے ساتھ سب مقتدیوں کا رویہ بالکل ٹھیک ہے۔اور کچھ مقتدی( ایک یا دو مقتدی) جو کئی مساجد سےاپنی شرارت کی وجہ سے نکالے بھی گئے ہیں اور اب موجودہ امام مسجد کا بھی جینا حرام کردیا ہے۔(ان کے الزامات) جھوٹ، افتراء اور تہمت کے علاوہ اورکچھ نہیں ،اور امام مسجد ان دونوں شخصوں کو اپنی نماز نہیں بخشتا اور ان دونوں سےمعاوضہ بھی نہیں لیتا۔ تو ان شرپسندوں کی نماز ہوگی یا نہیں؟

جواب

واضح  رہے کہ امامت ایک عظیم الشان منصب ہے، اس منصب کے اہل شخص کا احترام مسلمانوں پر لازم ہے، امام پر بلاوجہ طعن و تشنیع کرنا یا اس کو تنگ کرناسخت گناہ ہے۔

لہٰذا صورت مسئولہ میں  اگر  مذکورہ مقتدی امام  سےکسی دینی یا شرعی وجہ سے ناراض ہوں یعنی امام فاسق، فاجر یا لاپرواہ  ہو، یا اس کا عقیدہ درست نہ ہو، یا وہ سنتوں  کی رعایت نہ کرتا ہو ،اور یہ مقتدی اس وجہ سے اس سے ناراض ہیں، تو ایسی ناراضی معتبر بھی ہوگی  اور  ایسے امام کی امامت مکروہ ہوگی۔ اور اگر مقتدیوں کی  ناراضی دنیاوی دشمنی یا ائمہ کرام سے بغض یا مخالفت کی وجہ سے ہو  یا اس میں نفس کو دخل ہو  تو  ایسی ناراضی کا اعتبار نہیں ہے اور اس امام کی امامت بالکل درست ہے،  بلکہ اس صورت میں مقتدی  امام سے بغیر کسی شرعی وجہ کے ناراض ہونے کی وجہ سے ملامت کے مستحق ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صرف ایک، دو یا تین مقتدیوں کا امام پر اعتراضات کرنے اور طعن و تشنیع کا کوئی اعتبار بھی نہیں ، اسی طرح جاہل اور دین سے ناواقف لوگوں کے اعتراضات کابھی کوئی  اعتبار نہیں ۔  ایسے لوگوں کو چاہئے کہ امام مسجد کے منصب کا احترام کرتے ہوئے اس پر بلا وجہ طعن و تشنیع سے سخت احتیاط کریں، ورنہ اس کی وجہ سے ان کے اپنی نیکیاں   ضائع ہونے کا اندیشہ ہے۔

تاہم بہرصورت  ناراض ہونے کے باجود اس امام کے پیچھے  ان کی نمازیں ادا ہوجاتی  ہیں اور ان نمازوں کا اعادہ بھی لازم نہیں ہوگا۔باقی امام کا ان دونوں نمازیوں کو  اپنی نماز نہ بخشنے سے کیا مراد ہے؟ اس کی وضاحت کے بعد ہی اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"1122 - وعن أبي أمامة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «ثلاثة لا تجاوز صلاتهم آذانهم: العبد الآبق حتى يرجع، وامرأة باتت وزوجها عليها ساخط، وإمام قوم وهم له كارهون» ". رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب

(وإمام قوم) أي: الإمامة الكبرى، أو إمامة الصلاة (وهم له) : وفي نسخة: لها، أي الإمامة (كارهون) أي: لمعنى مذموم في الشرع، وإن كرهوا لخلاف ذلك، فالعيب عليهم ولا كراهة، قال ابن الملك: أي كارهون لبدعته أو فسقه أو جهله، أما إذا كان بينه وبينهم كراهة وعداوة بسبب أمر دنيوي، فلا يكون له هذا الحكم. في شرح السنة قيل: المراد إمام ظالم، وأما من أقام السنة فاللوم على من كرهه، وقيل: هو إمام الصلاة وليس من أهلها، فيتغلب فإن كان مستحقاً لها فاللوم على من كرهه، قال أحمد: إذا كرهه واحد أو اثنان أو ثلاثة، فله أن يصلي بهم حتى يكرهه أكثر الجماعة".

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح،كتاب الصلاة، باب الإمامة، 3/ 865، الناشر: دار الفكر، بيروت)

وفيه أيضاً:

"(من تقدم) أي للإمامة الصغرى أو الكبرى (قوماً) : وهو في الأصل مصدر قام فوصف به، ثم غلب على الرجال (وهم له كارهون) أي لمذموم شرعي، أما إذا كرهه البعض فالعبرة بالعالم ولو انفرد، وقيل: العبرة بالأكثر، ورجحه ابن حجر، ولعله محمول على أكثر العلماء إذا وجدوا، وإلا فلا عبرة بكثرة الجاهلين، قال تعالى: وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ[الأنعام: 37]" . 

(3/ 866)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(ولو أم قوماً وهم له كارهون، إن) الكراهة (لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة منه كره) له ذلك تحريماً؛ لحديث أبي داود: «لا يقبل الله صلاة من تقدم قوماً وهم له كارهون». (وإن هو أحق لا)، والكراهة عليهم".

(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ،‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب الإمامة، 1/ 559، ط: سعيد)

ہندیہ میں ہے:

"رجل أم قوماً وهم له كارهون إن كانت الكراهة لفساد فيه أو لأنهم أحق بالإمامة يكره له ذلك، وإن كان هو أحق بالإمامة لا يكره. هكذا في المحيط".

(الفتاوى الهندية،كتاب الصلاة،الباب الخامس في الإمامة، الفصل الرابع في بيان ما يمنع صحة الاقتداء وما لا يمنع، 1/ 87، دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100394

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں