بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بات بات پر اللہ کی عزت وجلال کی قسم اٹھانا


سوال

میری  ایک  عادت  ہے کہ  میں جب بھی کسی بات پر  جذباتی ہو جاتا ہوں، یا پھر کسی كو اپنی بات کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں تو یہ دو قسمیں اُٹھاتا ہوں، قسم ہے  مُجھے میرے رب کی عزت کی اور قسم ہے مُجھے میرے ربّ کے جلال کی، اور پھر اپنی بات مکمل کرتا ہوں۔ کیا مُجھے اِس طرح کی قسم اٹھانی چاہیے یا پھر یہ عمل صحیح نہیں ہے؟

جواب

واضح رہے کہ بات بات پر قسم اٹھانا چاہے وہ سچی ہی کیوں نہ ہو، یہ اچھی عادت نہیں ، اس میں احتیاط کرنی چاہیے۔

بہشتی زیور میں حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"مسئلہ:  بے ضرورت بات بات میں قسم کھانا بری بات ہے، اس میں اللہ تعالی کے نام کی بڑی بے تعظیمی اور بے حرمتی ہوتی ہے،  جہاں تک ہو سکے سچی بات پر بھی قسم نہ کھانا چاہیے۔"

(حصہ سوم، ص 145)

بہرحال اگر سائل کسی معاملہ میں  مذکورہ الفاظ کے ساتھ   قسم اٹھا لیتا ہے، جب کہ سائل اپنی بات میں سچا بھی ہو، تو اس میں کوئی گناہ نہیں، اور اگر مستقبل میں کسی جائز کام کے کرنے پر قسم اٹھائی، تو قسم  کو پورا کرنا لازم  ہوگا، اور پورا نہ کرنے کی صورت میں  گناہ ہوگا، اور  کفارہ بھی ادا کرنا لازم ہوگا۔

قسم ٹوٹ جائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ دس فقیروں کو دو وقت کا کھانا دے یا دس فقیروں میں سے ہر ایک فقیر کو ایک صدقہ فطر کی مقدار غلہ یا اس کی قیمت دے، یا دس فقیروں کو پہننے کا جوڑا دے ، اور اگر  اتنی گنجائش نہیں کہ رقم کی صورت میں قسم کا کفارہ ادا کرسکے تو مسلسل تین دن روزے رکھے۔

مستخرج أبي عوانة (3 / 401):

5476 - حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحَارِثِيُّ، وَأَبُو الْبَخْتَرِيِّ، قَالَا: ثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِيَّاكُمْ وَكَثْرَةَ الْحَلِفِ فِي الْبَيْعِ، فَإِنَّهُ يُنْفَقُ، ثُمَّ يُمْحَقُ» 

قال تعالي:

ولا تجعلوا الله عرضة لأيمانكم أن تبروا وتتقوا وتصلحوا بين الناس والله سميع عليم (224) 

في أحكام القرآن للجصاص ت قمحاوي (2 / 42):

"والوجه الثاني أن يكون قوله عرضة لأيمانكم يريد به كثرة الحلف وهو ضرب من الجرأة على الله تعالى وابتذال لاسمه في كل حق وباطل لأن تبروا في الحلف بها وتتقوا المأثم فيها وروي نحوه عن عائشة من أكثر ذكر شيء فقد جعله عرضة يقول القائل قد جعلتني عرضة للوم وقال الشاعر لا تجعليني عرضة اللوائم وقد ذم الله تعالى مكثري الحلف بقوله ولا تطع كل حلاف مهين فالمعنى لا تعترضوا اسم الله وتبذلوه في كل شيء لأن تبروا إذا حلفتم وتتقوا المأثم فيها إذا قلت أيمانكم لأن كثرتها تبعد من البر والتقوى.

 وتقرب من المآثم والجرأة على الله تعالى فكأن المعنى إن الله ينهاكم عن كثرة الأيمان والجرأة على الله تعالى لما في توقي ذلك من البر والتقوى والإصلاح فتكونون بررة أتقياء لقوله كنتم خير أمة أخرجت للناس وإذا كانت الآية محتملة للمعنيين وليسا متضادين فالواجب حملها عليهما جميعا فتكون مفيدة لحظر ابتذاله اسم الله تعالى واعتراضه باليمين في كل شيء حقا كان أو باطلا ويكون مع ذلك محظورا عليه أن يجعل يمينه عرضة مانعة من البر والتقوى والإصلاح وإن لم يكثر بل الواجب عليه أن لا يكثر اليمين ومتى حلف لم يحتجر بيمينه عن فعل ما حلف عليه إذا كان طاعة وبرا وتقوى وإصلاحا كما قال صلى الله عليه وسلم (من حلف على يمين فرأى غيرها خيرا منها فليأت الذي هو خير وليكفر عن يمينه)."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144203200790

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں