بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بارہ ربیع الاول کو روزہ رکھنا کیسا ہے؟


سوال

بارہ وفات پرروزہ رکھناکیساہے؟

جواب

واضح رہے کہ بارہ ربیع الاول  کے روزے  کی الگ سے کوئی فضیلت اَحادیثِ مبارکہ میں وارد نہیں ہوئی ہے، لہذا بارہ ربیع الاول کے روزے کی الگ سے کوئی خاص فضیلت سمجھنا یا اس کو الگ درجہ دے کر لازمی سمجھ کر رکھنا یا اس دن کی مخصوص سنت سمجھ کر روزہ رکھنا بدعت ہے، باقی جیسے عام دنوں میں روزہ رکھا جاتا ہے ایسے ہی اگر کوئی  خاص فضیلت سمجھے بغیر بارہ ربیع الاول کو بھی نفلی روزہ رکھ لے تو شرعاً  کوئی حرج نہیں۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن عائشة رضي الله عنها قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (‌من ‌أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو رد)."

(كتاب الصلح، باب: إذا اصطلحوا على صلح جور فالصلح مردود، ج: 2، ص: 959، رقم: 2550، ط: دار اليمامة - دمشق)

فتاوی شامی میں ہے:

"‌إذا ‌تردد ‌الحكم بين سنة وبدعة كان ترك السنة راجحا على فعل البدعة."

(‌‌كتاب الصلاة، ‌‌باب ما يفسد الصلاة وما يكره فيها، ج: 1، ص: 642، ط: سعید)

الاعتصام للشاطبی میں ہے:

"وأما غير العالم وهو الواضع لها، لأنه لا يمكن أن يعتقدها بدعة، بل هي عنده مما يلحق المشروعات، كقول من جعل يوم الإثنين يصام لأنه يوم مولد النبي صلى الله عليه وسلم، وجعل الثاني عشر من ربيع الأول ملحقا بأيام الأعياد لأنه عليه السلام ولد فيه."

(الباب السادس في‌‌ أحكام البدع، فصل هل في البدع صغائر وكبائر، ج: 2، ص: 548، ط: دار ابن عفان، السعودية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144503101242

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں