بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کا نفقہ اولاد پر کب لازم ہے؟


سوال

میری عمر 86سال ہے،میرےچار بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں،میری ایک عدد بلڈنگ ہے،جس کی پہلی منزل پرمیرےپہلے نمبر والے بیٹے کی فیملی رہتی تھی،آج سے دو سال پہلے وہ لڑائی کرکے یہاں سے چلے گئے اور پہلی منزل پر تالا لگا دیا،اس وقت میری بیوی حیات تھی،نہ تو مذکورہ بیٹا مجھے خرچہ کے پیسے دیتاتھا،نہ تیسرے اور چوتھے نمبر کے بیٹے پیسے دیتے تھے،جیسےہی میری بیوی کا انتقال ہوا،اس کے دو دن بعد میرا پہلے نمبر والا بیٹا واپس آگیا کہ پہلی منزل پر میں رہوں گا،مگر لڑائی وغیرہ ہوئی اور وہ چلا گیا،کیونکہ ان سب کوحصہ چاہیے،جب کہ میں زندہ ہوں،اگر ان کو حصہ دے دوں گا تو کہاں جاؤں گا،کیا روڈ پر سوؤں گا؟جو بھی حصہ ہوگا وہ میرے مرنے کے بعد شریعت کے مطابق ہوگا،اس سے پہلےمیں کسی کو کچھ نہیں دینا چاہتا،کیونکہ یہ لوگ ابھی تو مجھے خرچہ دیتے نہیں،گھر بیچ کر حصہ دے کر میں کہاں جاؤں گا؟

(1)لہذا مجھے اس پر فتوی دیجئے کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟

(2)نیز میرے سارے بیٹے میرا خرچہ بھی باندھیں،اور روزکھانے پینے کا انتظام بھی کریں،اس کا بھی فتوے میں ذکر کریں،کیونکہ میں دل کا مریض ہوں۔

جواب

(1)واضح رہے کہ ہرشخص اپنی ذاتی جائیداد میں جس طرح چاہےاور جو چاہے جائز تصرف کرسکتا ہے،وہ اپنی جائیداد میں سے کسی کو کچھ دے یا نہ دے،یہ اس کی اپنی مرضی ہے،کسی دوسرے کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اس کواس کی جائیداد میں کوئی تصرف کرنے پر مجبور کرے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں سائل اگر اپنی حیات میں اپنی جائیداد میں سے اپنی اولاد کو  حصہ نہیں دینا چاہتا ،تو اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان کوزندگی میں حصہ نہ دےاور اس کی اولاد کے لیے  جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے والد کو زندگی میں حصہ دینے پر مجبور کرے۔

(2)اگر سائل کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود ہویا اس کے پاس جمع پونجی ہو،تو سائل پر اسی میں سے اپنے نان ونفقہ کا انتظام کرنا لازم ہوگااور اگر سائل کی آمدنی کا کوئی ذریعہ موجود نہ ہو اور کوئی جمع پونجی بھی نہ ہو،تو اس کی صاحب ِ حیثیت اولادپر اس کے نان ونفقہ کا انتظام کرنا برابر سرابر لازم ہوگا۔

شرح المجلۃ لسلیم رستم باز میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يتصرف في ملك الغير بلا إذنه۔"

(المقدمة،المقالة الثانیة،المادۃ:96،ج:1،ص:51،ط:مکتبه رشیدیه)

الدرالمختار مع رد المحتار میں ہے:

"(و) تجب (على موسر) ولو صغيرا (يسار الفطرة) على الأرجح...(النفقة لأصوله)۔۔۔(الفقراء) ولو قادرين على الكسب"

"(قوله ولو قادرين على الكسب) جزم به في الهداية، فالمعتبر في إيجاب نفقة الوالدين مجرد الفقر"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص621،ط:سعید)

رد المحتار میں ہے:

"القسم الأول: الفروع فقط: والمعتبر فيهم القرب والجزئية: أي القرب بعد الجزئية دون الميراث كما علمت، ففي ولدين لمسلم فقير ولو أحدهما نصرانيا أو أنثى تجب نفقته عليهما سوية ذخيرة للتساوي في القرب والجزئية وإن اختلفا في الإرث"

(کتاب الطلاق،باب النفقة،ج:3،ص624،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں