بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باپ کا اپنے بچوں کو مارنا


سوال

کیا باپ اپنے بچوں کو مار سکتا ہے؟ روایت سنی ہے کہ باپ کی مار والی جگہ پر جہنم حرام ہے، کیا یہ درست ہے؟ 

جواب

والد کا تربیت کی خاطر شرعی حدود کی رعایت رکھتے ہوئے  اپنی اولاد کی پٹائی کرنا شرعاً جائز ہے، بلکہ  بعض مرتبہ شریعت میں مارنے کا حکم ہے جیسے کہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ سات سال کی عمر میں بچوں کو نماز کا حکم کرو اور دس سال کی عمر میں نماز نہ پڑھنے پر مارو۔ شرعی حدود کا مطلب یہ ہے کہ  ایسی مار نہ ہو جو  زخمی کردے، چہرے پر نہ مارے، شدید ضرورت کے بغیر ایک وقت میں تین ضربوں سے زیادہ نہ مارے ، مارتے وقت اولاد کی خیرخواہی اور تربیت کا ہی جذبہ دل میں ہو، اپنا غصہ نکالنا مقصود نہ ہو،   پٹائی ہاتھ سے کی جائے، ڈنڈے  یا کوڑے  وغیرہ کا استعمال نہ کیا جائے ۔

تلاش اور تتبع کے باوجود مذکورہ روایت ہمیں حدیث کی کسی بھی  کتاب میں نہیں مل سکی؛  اس لیے اس کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنا جائز نہیں۔

"عن عمرو بن شُعَيب عن أبيه عن جده، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مروا صبْيانكم بالصلاة إذا بلغوا سَبعا، واضْربوهم عليها إذا بلغوا عَشرا، وفرقوا بينهمَ في المضاجع". 

(أخرجه الإمام أحمد في مسنده في مسند عبد الله بن عمرو (6/ 243) برقم (6689)،ط. دار الحديث - القاهرة، الطبعة: الأولى، 1416 هـ = 1995 م)

"عن أبي هريرة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "إذا ضرب أحدكم فليتقّ الوجه".

(أخرجه الإمام أبوداود في  باب ضرب الوجه  في الحد (6/ 544) برقم (4493)، ط.  دار الرسالة العالمية، الطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م)

بذل  المجہود میں ہے:

(عن أبي هريرة، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: إذا ضرب أحدكم) وهذا شامل للحد وغيره (فليتق الوجه)؛ لأنه لطيف مجمع المعاني الإنسانية، فيخاف منه تعطيل المضروب.

(بذل المجهود شرح سنن أبي داود:  باب ضرب الوجه  في الحد (12/ 583)، ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة: الأولى، 1427 هـ - 2006 م)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين میں ہے:

"(وإن وجب ضرب ابن عشر عليها بيد لا بخشبة) لحديث: «مروا أولادكم بالصلاة وهم أبناء سبع، واضربوهم عليها وهم أبناء عشر".

 "(قوله: بيد) أي: ولايجاوز الثلاث، وكذلك المعلم ليس له أن يجاوزها، «قال عليه الصلاة والسلام لمرداس المعلم: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك». اهـ إسماعيل عن أحكام الصغار للأستروشني، وظاهره أنه لايضرب بالعصا في غير الصلاة أيضاً.(قوله: لا بخشبة) أي: عصًا، ومقتضى قوله: بيد أن يراد بالخشبة ما هو الأعم منها ومن السوط أفاده ط.(قوله: لحديث إلخ) استدلال على الضرب المطلق، وأما كونه لا بخشبة فلأن الضرب بها ورد في جناية المكلف. اهـ ".

(الدر المختار مع رد المحتار: كتاب الصلاة (1/ 352)،ط. سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں