بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں پر کیراٹن ٹریٹمنٹ کروانے کے بعد وضو اور غسل کا حکم


سوال

کیراٹن پروٹین کی ایک قسم ہے جو آپ کے بال ، جلد اور ناخن بناتی ہے۔  کیراٹن ایک حفاظتی پروٹین ہے ، جو آپ کے جسم کی پیدا کردہ دیگر اقسام کے خلیوں کے مقابلے میں سکریچنگ یا پھاڑنے کا کم شکار ہے۔ کیراٹن مختلف جانوروں کے پنکھوں ، سینگوں اور اون سے حاصل کیا جا سکتا ہے اور بال کاسمیٹکس میں جزو کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

پوچھنا یہ ہے کہ کیراٹن کو پروٹین کریم کی صورت میں بالوں پر لگایا جاتا ہے اور مکمل سوکھنے پرStraightener  کی مدد سے اس کو بالوں میں سیل کر دیا جاتا ہے تو یہ بالوں کی سطح میں پیوست ہو جاتا ہےجس کی وجہ سے بال نرم ہو جاتے ہیں۔

لیکن اگر تہ جم جاتی تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ تو بال گیلے کرنے پر پانی ایک دم سے بہ جاتا مگر یہ کریم لگانے کے بعد بال گیلے بھی ہوتے ہیں اور سوکھنے میں بھی معمول کے مطابق وقت لگتا ہے۔ 

پوری صورتِ حال میں  وضو اور غسل کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی چیز کا ایسا جسم اور ایسی تہ نہیں ہے جو اعضاء وضو و غسل تک پانی پہنچنے سے مانع ہو تو اس چیز کے لگے رہنے کے باوجود وضو و غسل صحیح ہو جاتا ہے۔

صورتِ مسئولہ میں کیراٹن ٹریٹمنٹ ( پروٹین کریم) کی جو تفصیل ذکر کی گئی ہے کہ اس کے بعد بال پانی لگنے سے گیلے بھی ہوتے ہیں اور اس کو دوبارہ سوکھنے میں بھی معمول کے مطابق وقت لگتا ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ کریم سٹریٹنر(Straightener) سے سیل کیے جانے کے بعد بھی بالوں تک پانی کے پہنچنے سے مانع نہیں ہوتی اور پانی بالوں تک پہنچ جاتا ہے، لہذا مذکورہ کریم لگانے سے وضو اور غسل پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

البتہ کیراٹن ٹریٹمنٹ کروانےکا اپنا شرعی حکم اس میں استعمال ہونے والی کریم کے اجزاء کی تفصیل بتا کر معلوم کیا جا سکتا ہے۔

الدر المختار میں ہے:

''(ولا يمنع) الطهارة (ونيم) أي خرء ذباب وبرغوث لم يصل الماء تحته (وحناء) ولو جرمه به يفتى (ودرن ووسخ) عطف تفسير وكذا دهن ودسومة (وتراب) وطين ولو (في ظفر مطلقا) أي قرويا أو مدنيا في الأصح بخلاف نحو عجين.''

وفي الشامية: 

"(قوله: به يفتى) صرح به في المنية عن الذخيرة في مسألة الحناء والطين والدرن معللا بالضرورة. قال في شرحها ولأن الماء ينفذه لتخلله وعدم لزوجته وصلابته، والمعتبر في جميع ذلك نفوذ الماء ووصوله إلى البدن اهـ لكن يرد عليه أن الواجب الغسل وهو إسالة الماء مع التقاطر كما مر في أركان الوضوء. والظاهر أن هذه الأشياء تمنع الإسالة فالأظهر التعليل بالضرورة، ولكن قد يقال أيضا إن الضرورة في درن الأنف أشد منها في الحناء والطين لندورهما بالنسبة إليه مع أنه تقدم أنه يجب غسل ما تحته فينبغي عدم الوجوب فيه أيضا تأمل".

(كتاب الطهارة، 1/ 154، ط: سعید)

حاشیہ الطحطاوی علی الدر المختار میں ہے:

"قوله:  (ولو جرمه) أي الحناء لكن لا بد أن يصل الماء تحته وأما إن لم يصل فلا تصح الطهارة ولذا قال في البحر: ولو ألزقت المرأة رأسها بالطيب بحيث لا يصل الماء إلى أصول الشعر وجب عليها إزالته".

(كتاب الطهارة، 1/ 464، ط: دار الکتب العلمية) 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في فتاوى ما وراء النهر إن بقي من موضع الوضوء قدر رأس إبرة أو لزق بأصل ظفره طين يابس أو رطب لم يجز وإن تلطخ يده بخمير أو حناء جاز...

وفي الجامع الصغير سئل أبو القاسم عن وافر الظفر الذي يبقى في أظفاره الدرن أو الذي يعمل عمل الطين أو المرأة التي صبغت أصبعها بالحناء، أو الصرام، أو الصباغ قال كل ذلك سواء يجزيهم وضوءهم إذ لا يستطاع الامتناع عنه إلا بحرج والفتوى على الجواز من غير فصل بين المدني والقروي".

(‌‌كتاب الطهارة ،الباب الأول في الوضوء ،الفصل الأول في فرائض الوضوء، 1/ 4، ط: رشيدية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144307100499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں