بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

بالوں میں قزع کرنے والے کی امامت


سوال

جو شخص قزع کرتا ہے (یعنی اپنے سر کے آدھے بالوں کو کاٹتا ہے اور آدھوں کو چھوڑ دیتا ہے) تو کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ سر کے بالوں کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ یا تو  سر کے پورے بال رکھے جائیں یا پورے کاٹے جائیں، سر کے کچھ بال کاٹنا اور کچھ چھوڑدینا منع ہے، اسے حدیث میں "قزع" سے تعبیر کرکے اس کی ممانعت کی گئی ہے، اور "قزع"  کی مختلف صورتیں ہیں، حاصل ان کا یہی ہے کہ سر کے بال کہیں سے کاٹے جائیں اور کہیں سے چھوڑدیے جائیں۔

لہذا صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً کوئی شخص قصداً  اپنے بالوں  کو غیر شرعی  طریقہ پر کٹواتا ہے، اور اس پر اصرار کرتا ہے، اور سمجھانے  پر  اس عمل کو نہیں چھوڑتا تو ایسے شخص کو  قصداً مستقل امام بنانا مکروہ ہے، اس کی اقتداء میں نماز مکروہ ہوگی، البتہ اگر وہ اس سے توبہ تائب ہوجائے یا  امامت کے لیے کوئی اور  اہل شخص میسر نہ ہو  یا جماعت نکل رہی ہو تو اس کی اقتداء میں نماز ادا کرنے سے نماز ادا ہوجائے گی، اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں ہے۔

 سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: [احلقوا كله أو اتركوا كله]."

(کتاب الترجل،6/ 261، ط: الرسالة العالمیة)

ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور ارشاد فرمایا کہ ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة، 12/ 220، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي أن السنة في شعر الرأس إما ‌الفرق أو ‌الحلق. وذكر الطحاوي: أن ‌الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة...قال ط: ويكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب، وفيها: كان بعض السلف يترك سباليه وهما أطراف الشوارب."

(كتاب الحظر و الإباحة،6/ 407، ط:ايچ ايم سعيد)

بہشتی گوہر میں ہے:

"پورے سر پر بال رکھنا نرمہ گوش تک یا کسی قدر اس سے نیچے سنت ہے اور اگر سر منڈائے تو پورا منڈا دینا سنت ہے اور کتروانا بھی درست ہے، مگر سب کتروانا اور آگے کی جانب کسی قدر بڑے رکھنا جو آج کل فیشن ہے جائز نہیں، اور اسی طرح کچھ حصہ منڈوانا کچھ رہنے دینا درست نہیں ۔"

(بالوں کے متعلق احکام، ص:180، ط:مکتبہ البشری)

حلبی کبیر    میں ہے:

"و لو قدّموا فاسقاً يأثمون بناء علي أن كراهة تقديمه كراهة تحريم ؛ لعدم اعتنائه بأمور دينه، و تساهله في الإتيان بلوازمه..."الخ

(كتاب الصلوة، الأولی بالإمامة، ص:513 ،514، ط: سهيل اكيدمي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504100429

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں