بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بال کیسے رکھنے چاہئیں؟


سوال

سر کے بال کٹوانے کا کون سا طریقہ درست ہے؟ یا کون کون سے طریقے ہیں؟ کیا صرف سائیڈ والے بال کٹوا سکتے ہیں؟ اٹھارہ سال کی عمر سے پہلے کندھوں تک بال رکھ سکتے ہیں؟ بڑے بال رکھنے کی حد کہاں تک ہے؟

جواب

مردوں کے لیے بال رکھنے کے مسنون تین طریقے ہیں، 1: کانوں کی لو تک، 2: کانوں کی لو اور کندھوں کے درمیان تک اور 3: کندھو ں تک اور حج وعمرہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بال منڈوانا بھی ثابت ہے۔ لہٰذا کوئی بال بڑھانا چاہے  تو ان تین طریقوں میں سے کسی طریقہ کے مطابق بال رکھ لینے چاهیے۔نیز اس میں عمر کی کوئی قید نہیں،البتہ اگر کوئی کم عمر کا  لڑکا ہو جس کی داڑھی نہ آئی ہو اور بڑے بال رکھنے سے فتنے کا اندیشہ ہو تو ایسی صورت میں کم عمر لڑکوں کو بڑے بال رکھنے سے گریز کرنا ضروری ہے،البتہ جب داڑھی آئے اور  فتنے کا خوف نہ ہو تو اس کے بعد لمبے بال رکھنا درست ہے۔

اوربال کتروانے (کٹوانے)میں  اس بات کا اہتمام لازم ہے کہ ہر طرف سے برابر کتروائے جائیں ، آپ علیہ الصلاۃوالسلام نے اس طرح بال کتروانے سے منع فرمایا ہے کہ کہیں سے چھوٹے اور کہیں سے بڑے ہوں ۔ نیز غیروں جیسی وضع قطع اختیار کرنا، ا ن جیسے بال بنوانا بھی ناجائز ہے۔لہٰذا صرف سائیڈوں سے بال کٹوانا یا چھوٹے کروانا اور اوپر کے بال چھوڑ دینا یا بڑے رکھنا  سائیڈوں کے مقابلے میں کم کٹوانادرست نہیں۔البتہ  سر کے بالوں کی تحدید کے لیے گدی سے بال کاٹے جائیں یا حلق کیا جائے تو  یہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہے، اسی طرح کان کے اطراف کے بال جو کان پر لگ رہے ہوں، انہیں برابر کرنے کے لیے اطراف سے معمولی بال کاٹ لینا جیسا کہ عام طور پر اس کا معمول ہے کہ سر  کے بالوں کو متعین کرنے اور اس کو دوسرے سے جدا کرنے کے لیے  کان کے اوپر بلیڈ لگاتے ہیں تو اس کی گنجائش ہے۔

حدیثِ پاک میں ہے:

"حدثنی محمد، قال: أخبرنی مخلد، قال: أخبرنی ابن جریج، قال: أخبرنی عبیداللہ بن حفص، أن عمر بن نافع أخبرہ، عن نافع مولی عبد اللہ، أنہ سمع ابن عمر رضي الله عنهما یقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ینهى عن القَزَع.... الحدیث".

(صحیح البخاری،باب القزع، رقم الحدیث: 5920، ط: دار طوق النجاۃ)

 سنن ابی داؤد  میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- رأى صبيا قد حلق بعض شعره، وترك بعضه، فنهاهم عن ذلك، وقال: احلقوا كله أو اتركوا كله."

(کتاب الترجل، باب في الذؤابة، ج:6، ص:261، ط:الرسالة العالمیة)

ترجمہ:" حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےایک بچہ کو دیکھا کہ اس کے سر کے بعض حصے کے بال مونڈے ہوئے اور بعض حصے میں بال چھوڑ دیے گئے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ،اور  ارشاد فرمایا کہ  ؛"(اگر بال مونڈنا ہو تو) پورے سر کے بال مونڈو ( اور اگر بال رکھنے ہوں تو) پورے سر پر بال رکھو۔"

بذل المجھود میں ہے:

"عن ابن عمر: أن النبي - صلى الله عليه وسلم - نهى عن القزع) ثم فسر ذلك (وهو أن يحلق رأس الصبي، ويترك له) من شعره (ذؤابة). قلت: وليس هذا مختصا بالصبي، بل إذا فعله كبير يكره  له ذلك، فذكر الصبي باعتبار العادة الغالبة."

(كتاب الترجل، باب في الصبي له ذؤابة، ج:12، ص:220، ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية،الهند)

مشکوۃ المصابیح  ميں ہے :

"وعن نافع عن ابن عمر قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم ينهى عن القزع. قيل لنافع: ما القزع؟ قال: يحلق بعض رأس الصبي ويترك البعض  وألحق بعضهم التفسير بالحديث."

(كتاب اللباس، باب الترجل، الفصل الأول، ج:2، ص:1262، رقم الحديث:4426، ط: المكتب الإسلامي بيروت)

ترجمہ:"حضرت نافع، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو  ’’قزع‘‘سے منع فرماتے ہوئے سنا، حضرت نافع سے پوچھا گیا کہ قزع کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا (قزع اس کو کہتے ہیں کہ ) لڑکے کے سر کے بعض حصہ کو مونڈا جائے اور بعض حصے کو چھوڑ دیا جائے ۔ (بخاری ومسلم ) اور بعض راویوں نے وضاحت کو حدیث کے ساتھ جوڑا ہے یعنی راوی کے مطابق، قزع کے یہ معنی آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے بیان فرمائے۔"

مظاهر حق ميں ہے  :

"نوویؒ کہتے ہیں کہ قزع کے معنی مطلق (کسی کے بھی ) سر کے کچھ حصے کو مونڈنا (اور کچھ حصے کو بغیر مونڈے چھوڑ دینا ہیں ) اور یہی معنی زیادہ صحیح ہیں؛ کیوں کہ حدیث کے راوی نے بھی یہی معنی بیان کیے ہیں،  اور یہ حدیث کے ظاہری مفہوم کے مخالف بھی نہیں ہیں،  لہٰذا اسی معنی پر اعتماد کرنا واجب ہے!  جہاں تک " لڑکے " کی تخصیص کا ذکر ہے تو یہ محض عام رواج و عادات کی بنا پر ہے، ورنہ قزع جس طرح لڑکے کے حق میں مکروہ ہے، اس طرح بڑوں کے حق میں بھی مکروہ ہے، اسی لیے فقہی روایات میں یہ مسئلہ کسی قید و استثنا  کے بغیر بیان کیا جاتا ہے اور قزع میں کراہت اس اہلِ  کفر کی مشابہت اور بد ہئیتی سے بچانے کے لیے ہے ،راوی نے " قزع " کا جو مطلب بیان کیا ہے اور جس کو نووی نے زیادہ صحیح کہا ہے، اس میں چوٹی (جیسا کہ غیر مسلم اپنے سر چھوڑتے ہیں ) (زلف اور بالوں کی ) وہ تراش خراش شامل ہے جو مسنون طرز کے خلاف ہو۔"

شرح النووی على مسلم میں ہے:

"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم مربوعا) هو بمعنى قوله في الرواية الثانية ليس بالطويل ولا بالقصير قوله (عظيم الجمة إلى شحمة أذنيه) وفي رواية ما رأيت من ذي لمة أحسن منه وفي رواية كان يضرب شعره منكبيه وفي رواية إلى أنصاف أذنيه وفي رواية بين أذنيه وعاتقه قال أهل اللغة الجمة أكثر من الوفرة فالجمة الشعر الذي نزل إلى المنكبين والوفرة مانزل إلى شحمة الأذنين واللمة التي ألمت بالمنكبين قال القاضي والجمع بين هذه الروايات أن ما يلي الأذن هو الذي يبلغ شحمة أذنيه وهو الذي بين أذنيه وعاتقه وما خلفه هو الذي يضرب منكبيه قال وقيل بل ذلك لاختلاف الأوقات فإذا غفل عن تقصيرها بلغت المنكب وإذا قصرها كانت إلى أنصاف الأذنين فكان يقصر ويطول بحسب ذلك والعاتق ما بين المنكب والعنق وأما شحمة الأذن فهو اللين منها في أسفلها وهو معلق القرط منها وتوضح هذه الروايات رواية إبراهيم الحربي كان شعر رسول الله صلى الله عليه وسلم فوق الوفرة ودون الجمة قوله في حديث البراء."

(كتاب الفضائل ،باب صفة شعره صلي الله عليه وسلم و صفاته و حليته، ج: 15 ،ص: 92، ط: دار إحياء التراث العربي)

فيض القدير للمناوی میں ہے: 

"(كان شعره دون الجمة وفوق الوفرة) وفي حديث الترمذي وغيره فلا يجاوز شعره شحمة أذنيه إذا هو وفره أي جعله وفرة فالمراد أن معظم شعره كان عند شحمة أذنه وما اتصل به مسترسل إلى المنكب والجمة شعر الرأس المتجاوز شحمة الأذن إذا وصل المنسكب كذا في الصحاح في حرف الميم وفيه في باب الراء المتجاوز من غير وصول وفي النهاية ما سقط على المنكبين ولعل مراده بالسقوط التجاوز وفي القاموس الوفرة ما سال على الأذن أو جاوز الشحمة قال أبو شامة: - وقد دلت صحاح الأخبار على أن شعره إلى أنصاف أذنيه وفي رواية يبلغ شحمة أذنيه وفي أخرى بين أذنيه وعاتقه وفي أخرى يضرب منكبيه ولم يبلغنا في طوله أكثر من ذلك وهذا الاختلاف باعتبار اختلاف أحواله فروى في هذه الأحوال المتعددة بعدما كان حلقه في حج أو عمرة وأما كونه لم ينقل أنه زاد على كونه يضرب منكبيه فيجوز كون شعره وقف على ذلك الحد كما يقف الشعر في حق كل إنسان على حد ما ويجوز أن يكون كانت عادته أنه كلما بلغ هذا الحد قصره حتى يكون إلى أنصاف أذنيه أو شحمة أذنيه لكن لم ينقل أنه قصر شعره في غير نسك ولا حلقه ولعل ما وصف به شعره من الأوصاف المذكورة كان بعد حلقه له عمرة الحديبية سنة ست فإنه بعد ذلك لم يترك حلقه مدة يطول فيها أكثر من كونه يضرب منكبيه فإنه في سنة سبع اعتمر عمرة القضاء وفي ثمان اعتمر من الجعرانة وفي عشر حج اه(ت في الشمائل د عن عائشة)".

(حرف الكاف ،باب كان و هي الشمائل الشريفة،ج: 5، ص :74، ط: المكتبة التجارية الكبرى)

حاشیہ طحطاوی میں ہے:

"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس أما الفرق وأما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة".

(حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح،كتاب الصلاة، باب الجمعة،  ص: 525، الناشر: دار الكتب العلمية بيروت - لبنان)

رد المحتار میں ہے:

"(قوله وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي أن السنة في شعر الرأس إما ‌الفرق أو ‌الحلق. وذكر الطحاوي: أن ‌الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة...قال ط: ويكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب، وفيها: كان بعض السلف يترك سباليه وهما أطراف الشوارب."

(كتاب الحظروالإباحة،ج:6، ص:407، ط: سعيد)

 في الفتاوى الهندية:

"يكره القزع وهو أن يحلق البعض ويترك البعض قطعا مقدار ثلاثة أصابع كذا في الغرائب. وعن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - يكره أن يحلق قفاه إلا عند الحجامة، كذا في الينابيع."

 (الباب التاسع عشر في الختان والخصاء وحلق المرأة شعرها ووصلها شعر غيرها،ج:5،ص:357،ط:دار الفكر بيروت)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144507100640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں