بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بال کٹوانے کی وجہ سے لازم دم حج سے پہلے دینا کیا ضروری ہے؟


سوال

بال کٹوانے کا مسئلہ ہے حج سے پہلے پہلے دم ہے یا حج کے بعد؟

جواب

ویسے تو آپ کا سوال مبہم ہے، لیکن غالبًا آپ اپنے سابقہ سوال (فتویٰ نمبر: 144212200671 ) کے تناظر میں سوال کر رہے ہیں،  مذکورہ صورت میں اگر دم لازم آرہا ہے تو  خواہ حج  سے قبل دم دے  دیں یا حج کے بعد ، دونوں جائز ہے۔ 

مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:

عمرہ کے بعد بال کٹوانے کا حکم

غنیة الناسک میں ہے:

"متي حلق عضواً مقصوداً بالحلق من بدنه قبل أوان التحلل فعليه دم، وإن حلق ما لیس بمقصود فصدقة کذا في المبسوط، ولا فرق في الحلق بین أن یحلق لنفسه أو یحلق له غیره بأمره أو بغیر أمره."

(غنیة الناسك، ص: ٢٥٥)

المبسوط للسرخسيمیں ہے:

ثم الأصل بعد هذا أنه متى حلق عضوا مقصودا بالحلق من بدنه قبل أوان التحلل فعليه دم، وإن حلق ما ليس بمقصود فعليه الصدقة، ومما ليس بمقصود: حلق شعر الصدر أو الساق، ومما هو مقصود: حلق الرأس أو الإبطين فإن حلق أحدهما أو نتف أو أطلى بنورة فعليه الدم أيضا؛ لأن كل واحد منهما مقصود بالحلق لمعنى الراحة.

( كتاب المناسك، باب الحلق، ٤ / ٧٣، ط: دار المعرفة - بيروت )

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212200672

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں