بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باغ کا عشرخریدنے والے پر ہے یا بیجنے والے پر؟


سوال

باغ میں لگے ہوئےپھل فروخت کرنےکے بعد عشر کس پر ہے بائع پر یا مشتری پر ؟اکثر کتابوں میں صراحۃً لکھا ہوا ہے کہ اگر ٹھیکیدار نے سیب کے باغ پکنے سے پہلے پھل خریدے تو عشر ٹھیکیدار پر ہے ،اگر پکنے کے بعد خریدے تو عشر بائع پر ہے ،لیکن لوگوں کا تعامل اس پر ہے کہ عشر دینا ہر صورت میں زمیندار پر واجب ہے اور جید علماء کرام کی رائے بھی یہی ہے کہ امام ابوسفؒ کا ایک قول کتابوں میں اسی طرح ملتا ہے جو تعامل الناس کے لیے کافی ہے،راہمنائی فرمائیں تفصیلاً۔

جواب

صورت مسئولہ میں درختوں پر لگے پھل فروخت کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جن کے الگ الگ احکامات ہیں ،ذیل میں تمام صورتیں اور ان کے احکام ذکر کیے جاتے ہیں:

1)درختوں پر لگے پھل  ظاہر ہونے سے بھی پہلے فروخت کیےجائیں ۔

(2)یاظاہر ہونےکے بعدفروخت کیےجائیں۔

اگر ظاہر ہونے سے پہلے پھلوں کو فروخت کیا گیاتو یہ ایک معدوم چیز کی خرید و فروخت ہوگی جو کہ شرعا باطل ہے اورایسی صورت میں آنے والے پھل بائع ہی کی ملکیت شمار ہوں گے،لہذا ان کا عشر/نصف عشر بھی بائع پر لازم ہوگا(اگر بارانی ہو تو عشر ورنہ نصف عشر)۔

اگر پھل کے ظاہر ہونے کے بعد انہیں فروخت کیا جائے تو اس کی2صورتیں ہیں :

(الف)یا تو پھل پکنے کے بعد فروخت کیے جائیں گے،یا(ب)پکنے سے پہلے۔

اگر پھل پکنے کے بعد فروخت کیے جائیں تو باتفاقِ ائمہ ثلاثہ عشر/نصف عشر بائع پر لازم ہے ۔

اور اگر پھل پکنے سے پہلے فروخت کیے جائیں اور پھلوں کو درخت پر چھوڑنے کی شرط نہ لگائی جائے،بلکہ بائع ازخود اپنی طرف سے پھلوں کو درختوں پر چھوڑنے کی اجازت دے دے تو اس کی پھر 2 صورتیں ہیں:

(الف)یا تو مشتری خریدنے کے بعد پھل کاٹ لے گا یا(ب) درختوں پر رہنے دے گا۔

اگر پھل کاٹ لیے تب بھی عشر/نصف عشر  بالاتفاق بائع ہی پر لازم ہوگا۔

اور اگر پھل درختوں پر رہنے دیے اور اسی حال میں پک گئے تو امام ابو حنیفہ ؒ اور امام محمد ؒ کے نزدیک عشر مشتری پر ہوگاجب کہ امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک کچے پھلوں کی قیمت کے بقدر حساب لگاکر اس کا عشر/نصف عشر بائع پر لازم ہوگا اور پھلوں کے پکنے کے بعد قیمت میں جتنا اضافہ ہوا ہے اس اضافی قیمت کا عشر/نصف عشر مشتری پرلازم  ہوگا۔

اس مسئلہ میں مفتی بہ قول تو طرفینؒ کا ہے لیکن اس قول پر عمل کرنے سے موجودہ زمانے میں حرج شدید لازم آئے گا اس لیے کہ آج کل بیشتر علاقوں میں عرف و رواج یہ ہے کہ پھلوں کا مالک اتنی گراں  قیمت پر پھل فروخت کرتا ہے کہ اگر عشر/نصف عشر طرفین کے قول کے مطابق خریدارپر لازم کیا جائے تو خریدارکا نقصان ہوگا اور سارا نفع بائع کو حاصل ہوگا،لہذا اس حرج شدید کو دیکھتے ہوئے زیر نظر مسئلہ میں علامہ ابن عابدین شامیؒ کے عشر سے متعلق ایک اور مختلف فیہ مسئلہ کی تحقیق کو بنیاد بناناچاہیے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ باغ کو اجارہ پر دینے کی صورت میں  امام ابوحنیفۃ رحمہ اللہ کے نزدیک عشر زمین کے مالک پر ہے جبکہ صاحبینؒ کے نزدیک عشر کرایہ دار پر ہے،اب باوجود اس کے کہ عبادات میں امام اعظم ؒ کا قول مفتی بہ ہوتا ہے اور امام صاحب ؒ کے قول پر بہت سے مشائخ نے فتوی بھی دیا ہے لیکن علامہ شامی ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے زمانہ میں اوقاف کی زمینیں جو کرایہ پر دی جاتی ہیں ان میں  کرایہ دار چونکہ زمین کے تمام مصارف خود برداشت کرتا ہے اس لیے وہ اجرت مثل سے اتنی کم اجرت پر زمین کرایہ پر لیتا ہے کہ اگر زمیندار پر عشر لازم کیا جائےتو  اس طے شدہ اجرت سے دوگنی اجرت میں بھی عشر ادا نہ ہوسکے ،اب اگر ایسی صورت میں عشر اجرت سے ادا کیا جائے گا تو اس سےحرج شدید لازم آئے گالہذا ایسی صورت میں صاحبینؒ کے قول پر ہی فتوی دینا چاہیے کہ عشر کرایہ دار کے ذمہ لازم ہو۔

زیر نظر مسئلہ میں بھی  جہاں کہیں اس طرح کا عرف و رواج ہوکہ بائع اتنی گراں قیمت پر پھل فروخت کرتا ہو کہ عشر خریدار پر لازم کرنے کی صورت میں حرج شدید لاحق ہوتا ہو وہاں امام ابو یوسفؒ کاقول مفتی بہ ہوگا یعنی کچے پھل جس قیمت پر فروخت کیے گئے اس کا عشر /نصف عشربیچنے والے پر ہوگا اور پھل پکنے کے بعد جو قیمت میں اضافہ ہوا اس اضافی قیمت کا عشر/نصف عشر خریدار پر لازم ہوگااور جہاں کہیں اس قسم کا عرف و رواج نہ ہو وہاں مکمل عشر/نصف عشر خریدار پر لازم ہوگا۔

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"ولو باع الزرع إن قبل إدراكه فالعشر على المشتري ولو بعده فعلى البائع

(قوله: ولو باع الزرع إلخ) الظاهر أن حكم خراج المقاسمة كالعشر كما يعلم مما مر ح ثم هذا إذا باع الزرع وحده وشمل ما إذا باعه وتركه المشتري بإذن البائع حتى أدرك فعندهما عشره على المشتري وعند أبي يوسف عشر قيمة القصيل على البائع، والباقي على المشتري كما في الفتح"

(کتاب الزکوۃ،باب العشر،ج:2،ص:333،ط:سعید)

بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع  میں ہے:

"ولو باع الأرض العشرية وفيها زرع قد أدرك مع زرعها أو باع الزرع خاصة فعشره على البائع دون المشتري؛ لأنه باعه بعد وجوب العشر وتقرره بالإدراك.ولو باعها والزرع بقل فإن قصله المشتري للحال فعشره على البائع أيضا لتقرر الوجوب في البقل بالقصل.وإن تركه حتى أدرك فعشره على المشتري في قول أبي حنيفة ومحمد لتحول الوجوب من الساق إلى الحب.وروي عن أبي يوسف أنه قال: عشر قدر البقل على البائع وعشر الزيادة على المشتري.وكذلك حكم الثمار على هذا التفصيل."

(کتاب الزکوۃ،فصل شرائط فرضیۃ زکوۃ الزروع،فصل:شرائط المحلیۃ،ج:2،ص:57،ط:سعید)

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"والعشر على المؤجر كخراج موظف وقالا على المستأجر كمستعير مسلم: وفي الحاوي وبقولهما نأخذ

قوله:( وفي الحاوي) أي القدسي ح (قوله وبقولهما نأخذ) قلت: لكن أفتى بقول الإمام جماعة من المتأخرين كالخير الرملي في فتاواه وكذا تلميذ الشارح الشيخ إسماعيل الحائك مفتي دمشق وقال حتى تفسد الإجارة باشتراط خراجها أو عشرها على المستأجر كما في الأشباه، وكذا حامد أفندي العمادي وقال في فتاواه قلت: عبارة الحاوي القدسي لا تعارض عبارة غيره فإن قاضي خان من أهل الترجيح فإن من عادته تقديم الأظهر والأشهر وقد قدم قول الإمام فكان هو المعتمد وأفتى به غير واحد منهم زكريا أفندي شيخ الإسلام وعطاء الله أفندي شيخ الإسلام، وقد اقتصر عليه في الإسعاف والخصاف. اهـ.

قلت: لكن في زماننا عامة الأوقاف من القرى والمزارع لرضا المستأجر بتحمل غراماتها ومؤنها يستأجرها بدون أجر المثل بحيث لا تفي الأجرة، ولا أضعافها بالعشر أو خراج المقاسمة، فلا ينبغي العدول عن الإفتاء بقولهما في ذلك؛ لأنهم في زماننا يقدرون أجرة المثل بناء على أن الأجرة سالمة لجهة الوقف ولا شيء عليه من عشر وغيره أما لو اعتبر دفع العشر من جهة الوقف وأن المستأجر ليس عليه سوى الأجرة فإن أجرة المثل تزيد أضعافا كثيرة كما لا يخفى فإن أمكن أخذ الأجرة كاملة يفتى بقول الإمام وإلا فبقولهما لما يلزم عليه من الضرر الواضح الذي لا يقول به أحد والله تعالى أعلم."

(باب العشر،فروع فی العشر،ج:2،ص:334،ط:سعید)

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"التاسع :ما إذا كان أحدهما أوفق لأھل الأزمان ؛فإن ما كان أوفق لعرفهم أو أسهل عليهم فهو أولي بالاعتماد عليه الخ."

(ص:69،ط:مکتبۃ البشری)

مجموعہ رسائل ابن عابدین میں ہے:

أما العرف الخاص إذا عارض النص المذھبی المنقول عن صاحب المذھب فھو معتبر کما مشی علیہ أصحاب المتون والشروح والفتاوی الخ."

(مجموعہ رسائل ابن عابدین ،نشر العرف فی بناء بعض الاحکام علی العرف،ص:133،ط:رشیدیہ)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

سوال:اگر زمین اجارہ پر دی جائے ...تو اس صورت میں جو آمدنی حاصل ہوگی تو اس کا عشر کس پر واجب ہوگا؟

جواب:اس مسئلہ میں اختلاف ہے ،امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک عشر مالک زمین پر ہے جبکہ صاحبینؒ کے نزدیک کاشتکار پر ہے ،عام فقہاء صاحبینؒ کے قول کو راجح قرار دیتے ہیں ۔علامہ ابن عابدین ؒ نے اس میں یوں تفصیل نقل کی ہے کہ اگر زمین کا اجارہ اجر مثل کے برابر ہو یعنی جیسی زمین ہو اسی کی مناسبت سے اجرت مقرر کی ہو تو عشر مالک زمین پر ہوگا اور اگر اجارہ میں اجرت اجر مثل سے کم مقرر کی ہو تو عشر کاشتکار پر ہوگا،لیکن بہتر یہ ہے کہ عرف عام پر چھوڑا جائے ،جس علاقے کے رواج کے مطابق مالک زمین پر عشر ہو تو عشر مالک زمین سے لیا جائے گا اور اگر کاشتکار پر ہو تو کاشتکار پر لازم ہوگا،چونکہ ہمارے علاقے میں کاشتکار کی آمدنی زیادہ ہوتی ہے اس لیے صاحبینؒ کےقول کی رو سے کاشتکار کو ادا کرنا ہوگا۔

(باب العشر،ج:3،ص:579،ط:مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں