بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

باقاعدہ مکمل عالم دین بننا فرضِ کفایہ ہے


سوال

 میں علم حاصل کر رہا ہوں اور  مجھے علم حاصل کرنے میں مشکل ہورہی ہے،کیوں کہ علم میں عربی ہےجو کہ مشکل ہے اور مجھے ذہنی مسائل ہیں،لہذا اگر میں علم حاصل کرنا چھوڑ دوں توقیامت کے دن  کوئی پکڑ تونہیں ہوگی؟

جواب

واضح رہے کہ دین کا اتنا علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرضِ عین ہے جس سے دینِ  اسلام کے عقائدِ صحیحہ کا علم حاصل ہوجائے اور پاکی و ناپاکی کے احکام سیکھے، نماز، روزہ اور تمام عبادات جو شریعت نے فرض و واجب قرار دی ہیں ان کا علم حاصل کرے، جن چیزوں کو حرام یا مکروہ قرار دیا ہے ان کا علم حاصل کرےاور جس شخص کے پاس بقدرِ نصاب مال ہو اس پر فرض ہے کہ زکاۃ  کے مسائل و احکام معلوم کرے ، جن کو حج پر قدرت ہے ان کے لیے فرضِ عین ہے کہ حج کے احکام و مسائل معلوم کرے، جس کو بیع و شرا  کرنا پڑے یا تجارت و صنعت یا مزدوری و اجرت کے کام کرنے پڑیں اس پر فرضِ عین ہے کہ بیع و اجارہ وغیرہ کے مسائل و احکام سیکھے، جب نکاح کرے تو نکاح کے احکام و مسائل اور طلاق کے احکام و مسائل معلوم کرے، غرض جو کام شریعت نے ہر انسان کے ذمہ فرض و واجب کیے ہیں ان کے احکام و مسائل کا علم حاصل کرنا بھی ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض عین ہے ۔

باقی پورے قرآن مجید کے معانی ومسائل کو سمجھنا،تمام احادیث کو سمجھنا اور ان میں معتبر اور غیر معتبرکی پہچان کرنا،قرآن وسنت سے جو احکام ومسائل نکلتے ہیں ان سب کا علم حاصل کرنا،اس میں صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے اقوال وآثار سے واقف ہونےکو(یعنی باقاعدہ مکمل عالمِ دین بننے کو) شریعت نے فرضِ کفایہ قرار دیا ہے،یعنی کہ بقدرِ ضرورت کچھ لوگ یہ سب علوم حاصل کرلیں،تو باقی مسلمان سبکدوش یعنی برئ الذمہ ہوجائیں گے۔

(ماخوز از"معارف القرآن"مؤلفہ حضرت مولانا مفتی محمد  شفیع ؒ،ج:4،ص:489،ط:مکتبہ معارف القرآن)

مذکورہ  تفصیل کی رو سےصورتِ مسئولہ میں سائل پر لازم نہیں  کہ وہ باقاعدہ طور پر مکمل علمِ دین حاصل کرے،اگر وہ ذہنی مسائل اوردیگر مشکلات کی وجہ سے علمِ دین کے حصول کو چھوڑنا چاہتا ہےتو اس کے لیے اس طرح کرنا جائز ہے،اس پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی،البتہ سائل پر اتنا علم حاصل کرنا فرضِ عین ہےجتنا کہ اس کے دین کی ضرورت ہو،جس کی تفصیل ماقبل میں گزر  چکی۔

الدر المختار میں ہے:

"واعلم أن تعلم العلم يكون فرض عين وهو بقدر ‌ما ‌يحتاج ‌لدينه. وفرض كفاية، وهو ما زاد عليه لنفع غيره."

وفي الرد  تحته:

"(قوله: واعلم أن تعلم العلم إلخ) أي العلم الموصل إلى الآخرة أو الأعم منه. قال العلامي في فصوله: من فرائض الإسلام تعلمه ما يحتاج إليه العبد في إقامة دينه وإخلاص عمله لله تعالى ومعاشرة عباده. وفرض على كل مكلف ومكلفة بعد تعلمه علم الدين والهداية تعلم علم الوضوء والغسل والصلاة والصوم، وعلم الزكاة لمن له نصاب، والحج لمن وجب عليه والبيوع على التجار ليحترزوا عن الشبهات والمكروهات في سائر المعاملات. وكذا أهل الحرف، وكل من اشتغل بشيء يفرض عليه علمه وحكمه ليمتنع عن الحرام فيه اهـ..وفي تبيين المحارم: لا شك في فرضية علم الفرائض الخمس وعلم الإخلاص؛ لأن صحة العمل موقوفة عليه وعلم الحلال والحرام وعلم الرياء؛ لأن العابد محروم من ثواب عمله بالرياء، وعلم الحسد والعجب إذ هما يأكلان العمل كما تأكل النار الحطب، وعلم البيع والشراء والنكاح والطلاق لمن أراد الدخول في هذه الأشياء وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان؛ لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهم عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرة أو مرتين، إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير....قال في تبيين المحارم: وأما فرض الكفاية من العلم، فهو كل علم لا يستغنى عنه في قوام أمور الدنيا كالطب والحساب والنحو واللغة والكلام والقراءات وأسانيد الحديث وقسمة الوصايا والمواريث والكتابة والمعاني والبديع والبيان والأصول ومعرفة الناسخ والمنسوخ والعام والخاص والنص والظاهر وكل هذه آلة لعلم التفسير والحديث، وكذا علم الآثار والأخبار والعلم بالرجال وأساميهم وأسامي الصحابة وصفاتهم، والعلم بالعدالة في الرواية، والعلم بأحوالهم لتمييز الضعيف من القوي، والعلم بأعمارهم وأصول الصناعات والفلاحة كالحياكة والسياسة والحجامة. اهـ."

(مقدمة، ج:1، ص:42 ،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100350

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں