بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

باجماعت نماز پڑھنے کی فضیلت


سوال

اگر کسی شخص کو درد شقیقہ ہو تو وہ دھوپ سے بچنے کی خاطر نماز ظہر گھر پر ادا کرسکتا ہے؟

جواب

جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا حکماً واجب  ہے، بلا عذر مرد کا گھر میں نماز پڑھنے کی عادت بنا لینا گناہ ہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت ترک کرنے والوں کے متعلق شدید وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں، بہت سی روایات میں یہ مضمون وارد ہے،حضرت  عبداللہ بن مسعود   رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یا تو کھلا ہوا منافق جماعت ترک کرتاتھا یا پھر ایسا مریض جو دو آدمیوں کے سہارے بھی نہ آسکتاہو، ورنہ مریض بھی دو آدمیوں کے سہارے گھسٹتے قدموں آکر مسجد کی جماعت میں شامل ہوتے تھے، اس لیے مرد کے لیے بلاعذر گھر میں نماز کا معمول بنانا گناہ ہے، مسجد میں ہی جماعت سے نماز ادا کرنا چاہیے، البتہ اگر کبھی عذر کی وجہ سے جماعت رہ جائے یا جماعت چھوٹنے کا معتبر عذر ہو،مثلاً: بیماری وغیرہ کی وجہ سے نہ جا سکے، تو گھر میں نماز پڑھنے میں کی اجازت ہوگی، لہذا اگر سائل کو شدید عذر لاحق ہو دھوپ سے درد میں اضافہ ناقابلِ برداشت ہو تو گھر پر نماز پڑھ سکتا ہے،ورنہ پگڑی ، رومال ، چادر ، چھتری وغیرہ سے دھوپ سے بچ کر باجماعت مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جائیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " والذي نفسي بيده لقد هممت أن آمر بحطب فيحطب ثم آمر بالصلاة فيؤذن لها ثم آمر رجلا فيؤم الناس ثم أخالف إلى رجال. وفي رواية: لا يشهدون الصلاة فأحرق عليهم بيوتهم والذي نفسي بيده لو يعلم أحدهم أنه يجد عرقا سمينا أو مرماتين حسنتين لشهد العشاء . رواه البخاري ولمسلم نحوه."

(كتاب الصلاة، باب الجماعة وفضلها، الفصل الأول، ج: 1 ص: 332ط: المکتب الإسلامي)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن عبد الله بن مسعود قال: لقد رأيتنا وما يتخلف عن الصلاة إلا منافق قد علم نفاقه أو مريض إن كان المريض ليمشي بين رجلين حتى يأتي الصلاة وقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم علمنا سنن الهدى وإن من سنن الهدى الصلاة في المسجد الذي يؤذن فيه

وفي رواية: " من سره أن يلقى الله غدا مسلما فليحافظ على هؤلاء الصلوات الخمس حيث ينادى بهن فإن الله شرع لنبيكم صلى الله عليه وسلم سنن الهدى وإنهن من سنن الهدى ولو أنكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته لتركتم سنة نبيكم ولو تركتم سنة نبيكم لضللتم وما من رجل يتطهر فيحسن الطهور ثم يعمد إلى مسجد من هذه المساجد إلا كتب الله له بكل خطوة يخطوها حسنة ورفعه بها درجة ويحط عنه بها سيئة ولقد رأيتنا وما يتخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين حتى يقام في الصف. رواه مسلم."

(كتاب الصلاة، باب الجماعة وفضلها،الفصل الثالث، ج: 1 ص: 336 ط: المکتب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410101636

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں