بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے لواطت کی صورت میں غسل کا حکم


سوال

 کئی لوگوں سے اور خاص طور پر علماء سے بھی یہ سنا ہے کہ بیوی کے ساتھ پیچھے کے دبر میں جماع کرنے سے اس بندے پر جو غسل واجب ہو جاتا ہے۔یہ اگر زندگی بھر سمندر کے پانی پر نہاتا رہے تو وہ غسل نہیں نکلتا۔اس کے بارے میں اگر کوئی وضاحت شریعت اسلام میں ہے۔تو اس کا بھی جواب عنایت فرمائے۔اور اگر یہ بات حقیقت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی اور غسل ہو جاتا ہےلیکن گناہ کبیرہ ہے تو اس کے بارے میں بھی براہ مہربانی رہنمائی فرما دیں۔

جواب

اپنی بیوی کے ساتھ غیر فطری طریقے (یعنی پیچھے کے راستے) سے ہم بستری کرنا   شرعاً  حرام ہے،  حدیث شریف میں رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے سختی سے منع فرمایا ہے، اور ایسا فعل کرنے والے پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے، اس سے نکاح تو نہیں ٹوٹے گا، لیکن یہ فعل شرعاً و عرفاً انتہائی قبیح اور شرم ناک  ہے اور اس کا مرتکب  سخت گناہ گار ہے۔ اگر کسی سے یہ گناہ سرزد ہو جائے تو اس پر لازم ہے کہ سچے دل سے توبہ کر کے آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے، اگر توبہ کر لے گا تو امید ہے کہ اللہ تعالی معاف فر دیں گے۔

نیز اس طرح  صحبت کرنے سے مرد وعورت دونوں پر غسل واجب ہوجاتا ہے اور عام واجب غسل کے طریقہ سے وہ شخص جنابت سے پاک ہوجاتا ہے۔ 

غسل جنابت کا طریقہ تفصیل سے درج ذیل لنک میں موجود ہے:

غسل جنابت کا شرعی (سنت) طریقہ 

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن علي بن طلق قال: أتى أعرابي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، الرجل منا يكون في الفلاة فتكون منه الرويحة، ويكون في الماء قلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إذا فسا أحدكم فليتوضأ، ولاتأتوا النساء في أعجازهن، فإن الله لايستحيي من الحق». وفي الباب عن عمر، وخزيمة بن ثابت، وابن عباس، وأبي هريرة.: «حديث علي بن طلق حديث حسن."

(باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، جلد 3 ص:460، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا وضو ٹوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ وہ وضو کرلے، اور تم لوگ بیویوں سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری نہ کرو، پس بے شک اللہ تعالیٰ حق بات کہنے سے نہیں شرماتا ہے۔

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن ابن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لاينظر الله إلى رجل أتى رجلاً أو امرأةً في الدبر."

(باب ما جاء في كراهية إتيان النساء في أدبارهن، جلد 3 ص:460، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف رحمت کی نظر سے نہیں دیکھتے ہیں جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ پیچھے کے راستے سے بد فعلی کرے۔

سنن أبي داود  میں ہے:

" عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأته في دبرها."

(باب في جامع النكاح،جلد3 ص:490، ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ملعون ہے وہ شخص جو اپنی بیوی سے پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرے۔

سنن الترمذي  میں ہے:

"عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «من أتى حائضاً، أو امرأةً في دبرها، أو كاهناً، فقد كفر بما أنزل على محمد». لانعرف هذا الحديث إلا من حديث حكيم الأثرم، عن أبي تميمة الهجيمی، عن أبي هريرة، وإنما معنى هذا عند أهل العلم على التغليظ."

(باب ما جاء في كراهية إتيان الحائض، جلد 1، ص:242، ط:  مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نےاپنی بیوی سے حیض کی حالت میں ہم بستری کی یا پیچھے کے راستے سے ہم بستری کی یا کسی کاہن کے پاس گیا تو تحقیق  اس نے محمد ﷺ پر اتارے گئے قرآن کا انکار کیا۔ 

لفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے:

"حل الوطء في القبل لا الدبر...لقوله تعالى: {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة:223/ 2] أي في أي وقت وكيفية شئتم في المكان المعروف وهو القبُل...وقوله صلّى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأة في دبرها» (2) «من أتى حائضاً أو امرأة في دبرها، أو كاهناً فصدَّقه، فقد كفر بما أنزل على محمد صلّى الله عليه وسلم»....لكن لا تطلق المرأة بالوطء في دبرها، وإنما يحق لها طلب الطلاق من القاضي بسبب الأذى والضرر."

(القسم السادس، الفصل الثاني، المبحث الرابع، احكام الزواج، ج:9، ص:6590، ط:دار الفكر)

الدر المختار میں ہے:

"(أو) بوطء (دبر)...إن في عبده أو أمته أو زوجته فلا حد إجماعا بل يعزر...وفي الفتح يعزر ويسجن."

(رد المحتار،كتاب الحدود، ج:4، ص:27، ط:سعيد)

فتاوى هندیہ میں ہے :

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام."

( الباب التاسع في اللبس ما يكره من ذلك وما لا يكره، کتاب الکراہیۃ ،جلد5، ص:360، ط:دار الفکر بیروت)

ترجمہ: اپنے غلام یا باندی یا بیوی کے ساتھ لواطت کرنا حرام ہے۔

فتاوى هنديہ میں  ہے:

"وفي كتاب الحيض للإمام السرخسي: لو استحل وطء امرأته الحائض يكفر، وكذا لو استحل اللواطة من امرأته. وفي النوادر عن محمد - رحمه الله تعالى -: لايكفر في المسألتين هو الصحيح."

(مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، جلد 2 ص:273، ط: دار الفکر بیروت)

فتاوى هنديہ میں ہے:

"( السبب الثاني الإيلاج ) الإيلاج في أحد السبيلين إذا توارت الحشفة يوجب الغسل على الفاعل والمفعول به أنزل أو لم ينزل وهذا هو المذهب لعلمائنا، كذا في المحيط. وهو الصحيح،كذا في فتاوى قاضي خان. ولو كان مقطوع الحشفة يجب الغسل بإيلاج مقدارها من الذكر،كذا في السراج الوهاج."

(الفصل الثالث في المعاني الموجبة للغسل، کتاب الطہارۃ جلد 1 ص:15، ط: دار الفکر بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100567

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں