بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ دیگر ورثاء کی میراث کا حکم


سوال

اگر کسی شخص کی تین بیٹیاں  ہوں اور وہ شخص وراثت بیٹیوں کے نام پر کر کے نہیں گیا ہو بلکہ اچانک بیماری کی شدت سے انتقال ہوگیا ہو ، یہ بات ضرور ہے کہ صحت کے زمانہ میں ان کا ارادہ تھا کہ بیٹیوں اور بیوی کے نام پر کر کے ان کی ملکیت میں دے دے ، اس کا ذکر بیوی ، بچوں اور خاندان کے تین مردوں سے کیا تھا اور ان سے کہا تھا کہ میرا جو کچھ بھی ہے میرے بیوی بچوں کا ہےلیکن نام پر کرنے سے پہلے اچانک ایسی بیماری آئی کہ انتقال کر گئےکچھ نہیں کر سکے نہ اتنی مہلت ملی کیوں کہ پندرہ دن میں انتقال ہوگیا۔ سوال یہ ہے کہ انہوں نے تین لوگوں کو گواہ بنایا ہو اس بات کا کہ میرا سب کچھ میری بیوی بچوں کا ہے اور یہ تین مرد خاندان کے ہوں تو کیا وراثت بیوی بچوں کے نام ہوگی یا اس میں باقی لوگ بھی شریک ہیں؟ 

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص کا اپنی زندگی میں یہ کہنا کہ " میرا جو کچھ بھی ہے  میری بیوی بچوں کا ہے" اور اس پر اس نے گواہ بھی بنا دئیے تھے تو شرعا ان الفاظ کا کوئی اعتبار نہیں، اس کے انتقال کے بعد   اس کی تمام جائیداد اس کے شرعی ورثاء میں تقسیم ہوگی صرف اس کی بیوی اور بیٹیوں  میں تقسیم نہیں ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا يتم حكم الهبة إلا مقبوضة ويستوي فيه الأجنبي والولد إذا كان بالغا، هكذا في المحيط. والقبض الذي يتعلق به تمام الهبة وثبوت حكمها القبض بإذن المالك."

(کتاب الهبة، الباب الثاني في مايجوز من الهبة  ومالا يجوز ج:4، ص:377، ط:رشيدية)

فتح القدیر میں ہے:

"(وتصح بالایجاب والقبول والقبض) ام الایجاب والقبول فانه عقد والعقد ینعقد بالایجاب والقبول والقبض لا بد منه لثبوت الملک ـــــــــــــــــ  ولنا قوله علیه صلی اللہ علیه وسلم لا تجوز الہبه الا مقبوضة

قال العلامه ابن الهمام:

قال صاحب النهایة ای تصح بالایجاب وحدہ فی حق الواھب، وبالایجاب والقبول فی حق الموھوب له  ــــــــــــــــــــــــ ولکن لا یملکه الموھوب له الا بالقبول والقبض."

(کتاب الهبة، ص/479، 480، 481 ج/7 ، ط/رشیدیه) 

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144311100489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں