بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی مرد کے لیے کھیتی ہے


سوال

کیاعورت کے پچھلی شرم گاہ میں جماع کرنا حرام ہے یا منع ہے؟ ایک صاحب فرمارہے تھے کہ عورت اپنی کھیتی کی طرح آپ جیسے چاہیں اس میں گزر جائیں، کیا یہ بات درست ہے؟ براہِ کرم مدلل جواب سے نوازیں۔

جواب

واضح رہے کہ اپنی بیوی کے دبر یعنی پچھلے راستہ میں دخول کرنا  بدترین گناہ ہے جو کہ حرام ہے، قرآن میں اشارۃً  اور احادیث میں صراحۃً اس کی حرمت اور ممانعت موجود ہے۔ قران کی آیت   {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم}(آیت نمبر ۲۲۳ سورہ بقرۃ) (تمہاری عورتیں تمہاری کھیتی ہیں سو جاؤ اپنی کھیتی میں جہاں سے چاہو)"، یہ آیت  دلالت  کرتی  ہے کہ بیوی کی اس جانب دخول کیا جائے جو مقام کھیتی کا مقام ہے اور وہ آگے کی جانب ہے نہ کہ پچھلی جانب ، اس آیت کی یہ تفسیر ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے منقول ہے؛ لہذا پچھلے راستہ سے دخول کرنے کی حرمت قرآن سے ثابت ہوتی ہے۔  احادیثِ  مبارکہ میں صراحت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ  :  اللہ تعالی حق بیان کرنے سے نہیں شرماتا ،  تم اپنی بیویوں کی پچھلی جانب میں دخول مت کرو (حدیث ذیل میں مذکور ہے)۔ لہذا اس آیت اور احادیث کی روشنی میں یہ فعل حرام ہے اور اس سے مکمل اجتناب کرنا لازم ہےاور کسی صورت میں پیچھے کی جانب صحبت کرنا  جائز نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"اللواطة مع مملوكه أو مملوكته أو امرأته حرام. المرأة إذا انقطع حجابها الذي بين القبل والدبر لا يجوز للزوج أن يطأها إلا أن يعلم أنه يمكنه أن يأتيها في القبل من غير الوقوع في ‌الدبر، وإن شك فليس له أن يطأها كذا في الغرائب. والله أعلم."

(کتاب الکراہیۃ، باب التاسع ج نمبر ۵ ص نمبر ۳۳۰، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"عن ابن عباس قال «أوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم} [البقرة: 223] الآية أقبل وأدبر واتق الدبر والحيضة» . رواه الترمذي، وأبو داود، وابن ماجه.

(عن ابن عباس قال: أوحي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم {نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة: 223] الآية أقبل: أي: جامع من جانب القبل (وأدبر) أي: أولج في القبل من جانب الدبر (واتق الدبر) أي: إيلاجه فيه قال الطيبي - رحمه الله -: تفسيرًا لقوله تعالى جل جلاله: {فأتوا حرثكم أنى شئتم} [البقرة: 223] فإن الحرث يدل على اتقاء الدبر (أنى شئتم) على إباحة الإقبال والإدبار والخطاب في التفسير خطاب عام وإن كل من يتأتى من الإقبال والإدبار فهو مأمور بهما (والحيضة) بكسر الحاء اسم من الحيض والحال التي يلزمها الحائض من التجنب كذا في النهاية، والمعنى اتق المجامعة في زمانها."

(کتاب النکاح باب المباشرۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۹۳، دار الفکر)

مرقاة المفاتيح میں ہے:

"و عن خزيمة بن ثابت أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله لايستحي من الحق لاتأتوا النساء في أدبارهن». رواه أحمد، والترمذي، وابن ماجه، والدارمي.

(لاتأتوا النساء في أدبارهن) و هذا في شأن النساء فكيف بالرجال: قال في شرح العقائد وفي استحلال اللواطة بامرأته لايكفر على الأصح، قيل: لأنه مجتهد فيه، وفي تفسير المدارك عند قوله تعالى: {وتذرون ما خلق لكم ربكم من أزواجكم} [الشعراء: 166] من تبيين لما خلق أو تبعيض والمراد بما خلق العضو المباح وكانوا يقولون ذلك بنسائهم وفيه دليل تحريم أدبار الزوجات والمملوكات ومن أجازه فقد أخطأ خطأ عظيما."

(کتاب النکاح باب المباشرۃ ج نمبر ۵ ص نمبر ۲۰۹۳، دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101275

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں