بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی کا شوہر کو یہ کہنا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی


سوال

گزارش ہے کہ میری بیٹی کے اپنے شوہر اور سسرال والوں کے ساتھ گھریلو ناچاقی چل رہی تھی ،جس سے  گھرمیں لڑائی جھگڑے کی نوبت آئی ،تو میری بیٹی نے تنگ آکر سب کے سامنے (جس میں میرا بیٹا،بہو شامل تھے اور ان کی طرف سے اس کی ساس،سسر،میراداماد اور بیٹی کےنند اور اس کا شوہر بھی موجود تھے ) میری بیٹی نے سب کےسامنے اپنے شوہر کو یہ کہا کہ میں آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،یہ جملہ صرف ایک مرتبہ کہا، جس کے گواہ مذکورہ  بالا لوگ ہیں۔اس واقعے کو ایک ماہ کا عرصہ گزرچکا ہے اور گھر سے نکلتے وقت میرے داماد نے میرے بیٹے کو یہ کہا تھاکہ ابھی آپ میری بیوی کو لے جائیں،  پھر دس دن بعد مل بیٹھ کر  بات کریں گے ،کیوں کہ عید میں دس دن رہ گئے تھے ،لیکن جب ایک ماہ کا عرصہ گزر گیا  اور داماد کی طرف سے کوئی رابطہ  نہ ہوا تو ہم معاملے پر بات چیت کرنے کے لیے اپنی بیٹی کو لے کر اس کے سسرال گئے ،تو بیٹی کے سسر نے کہا کہ آپ کی بیٹی نے تین مرتبہ یہ بات کہی کہ "میں شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی " ، اس بنیاد پر انہوں نے کسی مفتی سے فتویٰ لیا ہے،تو ان کے حساب سے تین مرتبہ اس طرح کہنے سے میری بیٹی کو خلع ہوچکا  ہےاور اب وہ اپنے شوہر کے نکاح میں نہیں ہے اور اس گھر میں اب ان کے لیے  کوئی     جگہ نہیں، اب پوچھنا یہ ہے کہ خلع کا شرعی طریقہ کیا ہے؟ اور اس کی عدت کی مدت کتنی ہے؟ 

کیا ایسی صور ت میں ایک ماہ کا عرصہ گزرجانے کے بعد میری بیٹی کوخلع ہوچکا  ہے؟ یا وہ اب بھی اپنے شوہر کے نکاح میں ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب سائل کی بیٹی نے اپنے شوہر سے یہ کہا کہ:"میں آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی" تو اس سے خلع واقع نہیں ہوا، لہٰذا سائل کی بیٹی کا نکاح اپنے شوہر سے برقرار ہے،بنابریں سائل کی بیٹی کے سسرال والوں کا یہ کہنا درست نہیں کہ :"مذکورہ جملہ کہنے سے  سائل کی بیٹی کو خلع ہوچکا ہےاور اب وہ اپنے شوہر کے نکاح میں نہیں اور ان کے گھر میں اب سائل کی بیٹی کے لیے کوئی جگہ نہیں "، تاہم اگر سائل کی بیٹی کا شوہر اسے نکاح میں برقرار نہیں رکھنا چاہتا تو طلاق یاخلع دےدے،جس کے بعد سائل کی بیٹی پر تین ماہواریاں (اگر حمل نہ ہو، ورنہ وضعِ حمل ) عدت گزارنا لازم ہوگا۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: و الخلع يكون إلخ) في الجوهرة: ألفاظ خمسة: خالعتك، باينتك، بارأتك، فارقتك، طلقي نفسك على ألف."

(کتاب الطلاق،باب الخلع،مطلب ‌الفاظ الخلع خمسۃ ،443/3،سعید)

الدرالمختار مع تنویرالابصار میں ہے:

"(و إيقاعه مباح) عند العامة لإطلاق الآيات أكمل (وقيل) قائله الكمال (الأصح حظره) (أي منعه) (إلا لحاجة) كريبة وكبر والمذهب الأول كما في البحر."

(کتاب الطلاق،227/3،سعید )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101195

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں