1- قرآن مجید کے پارہ نمبر 26 آیت نمبر 10 میں بئس لاسم الفسوق میں (ل) پر جزم کیوں نہیں ہے؟
2- فیصل رحمان کو فیصل الرحمان بھی لکھ سکتے ہیں کہ نہیں؟ ٹھیک کون سا ہے؟
"بئس لاسم الفسوق" میں لام کو کسرہ کی حرکت دی گئی ہے، اس پر جزم اس لیے نہیں ہے کہ عربی لغت میں جب کسی کلمہ میں دو ساکن حرف جمع ہوجاتے ہیں تو پہلے حرف کو کسرہ کی حرکت دی جاتی ہے، یہاں بھی اس قاعدہ پر عمل کیا گیا ہے، لام اور سین دونوں ساکن تھے تو پہلے حرف لام کو کسرہ کی حرکت دی گئی ۔
2:عربی ترکیب کے اعتبار سے اصل "فیصلُ الرحمان" ہے ، البتہ اردو اور فارسی ترکیب کے اعتبار سے "فیصلِ رحمان " بھی لکھ سکتے ہیں۔
غایۃ المرید فی علم التجوید میں ہے:
"أما همزة الوصل في "الاسم" من قوله تعالى: {بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإيمَانِ} بالحجرات عند الابتداء ففيها وجهان: ... الأول: إذا نظرنا إلى الأصل و هو البدء بهمزة الوصل في "أل" مع تحريك اللام بالكسر للتخلص من التقاء الساكنين فنقول: "اَلِاسم".الثاني: إذا نظرنا إلى حركة اللام العارضة التي جيء بها للتخلص من التقاء الساكنين واعتددنا بها نبدأ باللام فقط فنقول: "لاِسم" من غير أن نبدأ بهمزة الوصل لأنها إنما تجتلب للتوصل إلى النطق بالساكن، ولما تحركت اللام بالكسر فلا حاجة إذن لهمزة الوصل."(ج:1/ص:156)
النحوالوافی میں ہے:
"و منه قوله تعالى: {إِذَا زُلْزِلَتِ الْأَرْضُ زِلْزَالَهَا، وَأَخْرَجَتِ الْأَرْضُ أَثْقَالَهَا، وَقَالَ الْإِنْسَانُ مَا لَهَا، يَوْمَئِذٍ تُحَدِّثُ أَخْبَارَهَا} .فقد حذفت -فى الأمثلة السالفة جملة أو أكثر بعد: "إذْ" مباشرة، وجاء التنوين عوضًا عن المحذوف. و لما كانت الذال ساكنة، و كذلك التنوين، حركْنا الذال بالكسر؛ ليمكن النطق والتغلب على اجتماع الساكنين ..."
(المسألة الثالثة، أقسام التنوین و أحکامه، ج:1، ص:41، ط: دارالمعارف)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144201200275
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن