اگر بی سی دس مہینے کی ہو تو زکوۃ کب دیں گے؟
اگر کمیٹی وصول نہ کی ہو تو (بی سی )کمیٹی میں جتنی رقم(قسطیں) آدمی جمع کرواچکاہے اگر وہ رقم تنہا یا دوسرے اموال کے ساتھ مل کر زکاۃ کے نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کو پہنچ جاتی ہے تو اس رقم کی زکاۃ ادا کی جائے گی، مثلاً: ایک شخص کمیٹی میں بیس ہزار روپے بھر چکاہے اور وہ پہلے سے صاحبِ نصاب ہے تو زکاۃ اداکرتے وقت بیس ہزار کی رقم کو بھی شامل کرکے زکاۃ ادا کرے گا، البتہ فوری انتظام نہ ہو تو یہ اختیار ہے کہ جب بی سی کی رقم مل جائے اس وقت زکاۃ ادا کردے۔ اور اگر آدمی پہلے سے صاحب نصاب نہیں ہے اور کمیٹی میں جمع کردہ رقم زکاۃ کے نصاب کے برابر نہیں تو اس رقم پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔
اور اگر کوئی شخص کمیٹی وصول کرچکا ہو، تو زکوۃ کی ادائیگی کے وقت کمیٹی کی جو رقم اس کے پاس موجود ہوگی، اس مجموعی رقم میں سے جتنی قسطیں باقی ہیں، وہ سب قرضہ ہیں، انہیں منہا کرکے بقیہ رقم کی زکوۃ ادا کرنی ہوگی۔
کذا في الدرالمختار:
"إنّ الدیون عند الإمام ثلاثة: قوي و متوسط و ضعیف، فتجب زکاتھا إذا تمّ نصابًا و حال الحول لکن لافورًا، بل عند قبض أربعین درهمًا من الدین القوي کقرض وبدل مال تجارۃ، فکلّما قبض أربعین درهمًا یلزمه درھم الخ."
( ج2، ص305، باب زکاۃ المال، ط سعید)
وفي الدر المختار:
"(وسببه) أي سبب افتراضها (ملك نصاب حولي) نسبة للحول؛ لحولانه عليه (تام) ... (فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد)".
(رد المحتار2/ 259ط:سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144205201232
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن