بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بی فور یو کی معلومات


سوال

مجھے بی فور یو کی معلومات درکار ہے؟

جواب

مذکورہ کمپنی  (B4U)  کے کاروبار کا مکمل طریقہ، و منافع  کی تقسیم کا طریقہ کار و شرائط اب تک مکمل طور پر واضح نہیں ہیں، ہمیں جو معلومات دست یاب ہوئیں  اس کے مطابق  b4u  نامی  کمپنی  میں سرمایہ کاری کرنے پر کمپنی دوقسم کے پیکج دیتی ہے:

 1-   فکس منافع میں آپ کا منافع فکس ہوگا۔

 2-  آپ کامنافع فکس نہیں رہتا، کم بھی اور زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ مذکورہ کمپنی   (B4U Traders)  کرپٹو کرنسی میں بھی سرمایہ کاری کرتی ہے، ’’بٹ کوائن‘‘ اور اس طرح کی دیگر ڈیجیٹل کرنسی جنہیں  ’’ کرپٹو کرنسی ‘‘  کہا جاتا ہے کا کوئی مادی وجود نہیں ہے، اس لیے اسے ’’کرنسی‘‘ یا ’’مال‘‘ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے ، اس لیے اس کے ذریعہ لین دین کرنا، اس میں سرمایہ کاری کرنا اور اس کا کاروبار کرنا جائز نہیں ہے۔

ان تمام تفصیلات کی روشنی میں B4U کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے کا شرعی حکم یہ ہے کہ پہلا پیکج جس  میں کمپنی   کی طرف سے فکس منافع دیا جاتا ہے وہ تو مطلقًا ناجائز ہے، کیوں کہ سرمایہ کاری میں فکس منافع دینے کا معاہدہ کرنا ہی خلافِ شریعت اور ناجائز ہے اور ایسی کمائی بھی ناجائز اور حرام ہوگی۔ جب کہ دوسرا پیکج جس میں منافع  فکس (متعین) نہیں کیا جاتا ہے  اگر یہ منافع کرپٹو کرنسی میں انویسٹمنٹ کے نتیجے میں ملتاہے تو اس میں بھی سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب  لازم ہے؛  کیوں کہ اس پیکج میں سرمایہ کاری کرنے سے کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کرنا لازم آئے گا جو کہ  از روئے فتویٰ جائز نہیں ہے، دوسری بات یہ ہے کہ  صرف منافع فکس نہ ہونے سے منافع حلال نہیں ہوتا، بلکہ دیگر شرعی حدود و شرائط کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے، اس لیے اس دوسرے پیکج میں سرمایہ کاری کرنے کے طریقہ کار کی مکمل تفصیل اور شرائط  وغیرہ  دیکھ کر ہی اس بارے میں مزید واضح حکم بتایا جاسکتاہے، چنانچہ  جب تک مذکورہ کمپنی کے تمام پہلو مکمل واضح نہ ہو جائیں، اس وقت تک  دوسری قسم (  یعنی جس میں منافع متعین نہیں ہوتا) میں بھی انویسٹمنٹ کرنے سے   اجتناب کیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وكون الربح بينهما شائعًا) فلو عين قدرًا فسدت."

(كتاب المضاربة، ج:5، ص:648، ط:ايج ايم سعيد)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"وعن النعمان بن بشير - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " «الحلال بين والحرام بين، وبينهما مشتبهات لايعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرأ لدينه وعرضه، ومن وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك أن يرتع فيه، ألا وإن لكل ملك حمى، ألا وإن حمى الله محارمه، ألا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله، ألا وهي القلب»". متفق عليه."

(باب الكسب وطلب الحلال، ج:5، ص:1891، ط:دار الفكر.بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200276

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں