بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

29 شوال 1445ھ 08 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

عظمیہ یا ازمیہ نام رکھنا


سوال

عظمیہ یا ازمیہ نام رکھناکیساہے؟ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں۔

جواب

۱) ’’اَزمیہ‘‘ دراصل ایک تفریحی علاقے’’اَزم‘‘ کی طرف منسوب ہے،جو کہ سیراف مقام کے ایک کونے پر واقع ہے،اس لحاظ سے ازمیہ کامعنیٰ ’’مقامِ ازم پر رہنے والی خاتون‘‘ ہوگا،اسی طرح لفظِ ’’ازم‘‘سختی سے پکڑنے،کاٹنے ،شدت اور قحط سالی وغیرہ کے معنیٰ میں استعمال ہوتا ہے،اس کے مطابق ’’اَزمیہ‘‘ کا معنیٰ ہوگا ’’قحط سالی کے زمانے والی عورت‘‘یا ’’پیچھے لگ جانے والی عورت‘‘،چوں کہ پہلی صورت میں اس کا کوئی  بامقصد معنیٰ نہیں اور دوسری صورت میں معنیٰ مناسب نہیں،اس لیے دونوں معنی کے اعتبار سے نام رکھنا مناسب نہیں۔

۲) ’’عُظمِیہ‘‘ دراصل مقامِ ’’عُظم‘‘ کی طرف منسوب ہے،جو کہ خیبر کے قرب وجوار میں واقع ہے،اس کے مطابق عُظمِیہ کا معنی ’’مقامِ عُظم پر رہنے والی خاتون‘‘ ہوگا،اسی طرح ’’عَظمیہ‘‘ کا معنیٰ ’’احترام والی عورت‘‘ یا ’’عظمت والی عورت‘‘ سے بھی کیا جاسکتا ہے،پہلی صورت میں تو ’’عُظمیہ‘‘ کا کوئی بامقصد معنیٰ ہی نہیں البتہ دوسری صورت ميں ’’عَظمیہ‘‘   نام رکھنا درست تو ہے،البتہ بہتر یہ ہےکہ بچیوں کا نام صحابیات کے ناموں میں سے کسی نام سے رکھا جائے۔

تاج العروس میں ہے:

"أزم، يأزم ... (عض بالفم كله شديدا) ، وقيل: بالأنياب، وقيل: هو أن يعضه ثم يكرر عليه ولا يرسله، وقيل: هو أن يقبض عليه بفيه...(و) أزم عليهم (العام) والدهر أزما وأزوما: (اشتد قحطه) وقل خيره. (و) أزم العام (القوم)  أزما: (استأصلهم)...(و) الأزمة: (الشدة) والقحط."

(ص:٢١٢،ج:٣١،‌‌‌‌فصل الهمزةمع الميم،ط:دار إحياء التراث)

وفیه ايضا:

"(العظم، بكسر العين) أي مع فتح الظاء، ولو قال: كعنب كان أجرى على قواعده وأضبط: (خلاف الصغر) ، وهو كبر الطول والعرض والعمق...(وعظمة تعظيما وأعظمه) إذا (فخمه وكبره) وبجله، نقله الجوهري ... ورجل عظيم في المجد والرأي على المثل ولفلان عظمة عند الناس، أي حرمة يعظم لهاوله معاظم مثله، قال المرقش ... وإنه لعظيم المعاظم، أي عظيم الحرمة."

(ص:١١٣-١١٠،ج:٣٣،‌‌فصل العين المهملة مع الميم،ط:دار إحياء التراث)

معجم البُلدان میں ہے:

"‌‌‌أَزَمٌ:بفتحتين. ناحية من نواحي سيراف ذات مياه عذبة وهواء طيب، نسب إليها بحر بن يحيى بن بحر ‌الأزمي الفارسي...وأزم أيضا: منزل بين سوق الأهواز ورامهرمز."

" (ص:١٦٩،ج:١،حرف الهمزة،‌‌‌‌باب الهمزة والزاي وما يليهما،ط:دار صادر،بیروت)

وفیہ ایضا:

"عُظْمٌ:بضم أوله، وسكون ثانيه، وعظم الشيء ومعظمه: أكثره، وذو عظم، بضمّتين، كأنه جمع عظيم: عرض من أعراض خيبر فيه عيون جارية ونخيل عامرة."

(ص:١٣٠،ج:٤،حرف العین،‌‌باب العين والظاء وما يليهما،ط:دار صادر،بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100125

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں