میں نے اپنی بیٹی کا نا م ازہیٰ فاطمہ رکھا ہے،یہ نام رکھنا کیسا ہے؟
عربی زبان میں"ازہیٰ" مذکر (لڑکے) اور مؤنث (لڑکی)دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس لفظ کے کئی معانی ہیں ،مثلاً کھجور کا سرخی یا زردی میں زیادہ خالص ہونا،زیادہ صاف رنگ والا ہوناان معانی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست ہے،اس لفظ کا ایک معنی زیادہ تکبر کرنے والا ہونا،اس معنی کے لحاظ سے یہ نام رکھنا درست نہیں،نیز فاطمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کا نام ہے،اس نسبت سے یہ نام رکھنا باعثِ برکت ہے،اس لیے بیٹی کا نام "ازہیٰ"کے بجائے صرف فاطمہ یا اس کے ساتھ کوئی اچھے معنی والا نام رکھ لیا جائے، کیوں کہ "ازہیٰ" نام میں تکبر والے معنی کا بھی احتمال ہے۔
تاج العروس میں ہے:
"وفي المصباح: {زها النخل} يزهو {زهوا، والاسم} الزهو، بالضم، ظهرت الحمرة والصفرة في ثمره.
وقال أبو حاتم: وإنما يسمى زهوا إذا خلص لون البسرة في الحمرة أو الصفرة.
(و) {الزهو: (الكبر والتيه) والعظمة (والفخر) والظلم."
(فصل الزاي ،زھو، ج:38، ص:234، ط:دار إحياء التراث)
المعجم الوسيط میں ہے:
"(زها)
زهوا وزهوا تاه وتعاظم وافتخر والسراج وَغَيره أضاءه واللون صفا وأشرق والبسر تلون بحمرة أَو صفرَة وَصفا لَونه بعد الْحمرَة أَو الصُّفْرَة. "
(باب الزاي، ج:1، ص:405، ط: دار الدعوة)
شرح ابن عقیل میں ہے:
"ويلزم أفعل التفضيل المجرد الإفراد والتذكير وكذلك المضاف إلى نكرة وإلى هذا أشار بقوله:وإن لمنكور يضف أو جردا …ألزم تذكيرا وأن يوحدافتقول زيد أفضل من عمرو وأفضل رجل وهند أفضل من عمرو وأفضل امرأة والزيدان أفضل من عمرو وأفضل رجلين والهندان أفضل من عمرو وأفضل امرأتين والزيدون أفضل من عمرو وأفضل رجال والهندات أفضل من عمرو وأفضل نساء فيكون أفعل في هاتين الحالتين مذكرا ومفردا ولا يؤنث ولا يثنى ولا يجمع."
(افعل التفضیل،ج،4،ص:178، ط: دار التراث)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510102112
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن