بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ازدواجی زندگی اور گھریلو معاملات سے متعلق متفرق سوالات


سوال

میری شادی 31 دسمبر 2023 میں ہوئی ،میری جس لڑکی سے شادی ہوئی ،اسی کے بھائی سے میری بہن کی بھی شادی ہوئی یعنی وٹہ سٹہ کی شادی تھی،شادی کے دوماہ بعد ہی میری بیوی نے مجھ سے زبان چلانا شروع کردی،بداخلاقی کرتی تھی ،یہاں تک کہ ہاتھ بھی اٹھاتی تھی،میری بہن کی جس سے شادی ہوئی ہے وہ گھر کا اکلوتا بیٹا ہے،اور اس کی چارشادی شدہ بہنیں  ہیں،میری بہن کے سسر ہرکام انہی کے مشورے سے کرتے ہیں ، اور میری بہن کی نندیں ہر کام میں نقص نکالتی رہتی ہیں،مثلاًکھانا صحیح نہیں بنا،صفائی ٹھیک سے نہیں کی ،یہاں تک کہ خرچہ سے متعلق بھی کہتی ہیں کہ اسے خرچہ وغیرہ مت دو،اب آپ مجھے مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات عنایت فرمادیں :

1۔میری بیوی مجھ سے بداخلاقی کرتی ہے،اور بسا اوقات ہاتھ بھی  اٹھاتی ہے،شرعاً اس کا کیا حکم ہےاور مجھے کیا کرنا چاہیے؟

2۔ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق میری بیوی میں کچھ ایشوز ہیں،اگر اس سے میری اولاد نہیں ہوئی تو آگے میرے لیے کیا حکم ہے؟

3۔میرے سسر کا مجھے یہ دھمکی دینا کہ میری  بیٹی کا گھر خراب ہوا تو تمھاری بہن کا بھی خراب ہوگا،حالانکہ بہن کا شوہر اس سے خوش ہے،ایسے میں ان کے لیے شرعی حکم کیا ہے؟

4۔ایک بیوی کا ماہانہ خرچہ کتنا ہونا چاہیے؟

5۔میری بہن کی نندوں کا ہر چیز میں دخل اندازی کرنا ،نقص نکالنا،اور خرچہ نہ دینے کا کہنا ،کیا یہشرعا جائز ہے؟

جواب

1-صورت مسئولہ میں بیوی کا آپ سے بدزبانی وبداخلاقی کرنا ناجائز اور حرام ہےاوربسااوقات اس کا آپ پر ہاتھ اٹھاناانتہائی بے ہودہ حرکت ہے۔ بیوی پر لازم ہے کہ اس فعل پر توبہ و استغفار کرے اور آپ سے بھی معافی مانگے،لیکن اگر بیوی اپنی نادانی کی وجہ سے شوہر کی نافرمان ہو اور شوہر کو تنگ کر کے اذیت پہنچاتی ہو تو بھی شوہر کو طلاق دینے میں جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہیے، کیوں کہ جلد بازی میں کیا گیا فیصلہ بعض اوقات زندگی بھر پچھتاوے کا باعث بنتا ہے، اس لیے شوہر کو چاہیے کہ جہاں تک ممکن ہو نباہ کی اور بیوی کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے،اور ایسی صورت میں  شوہر  کو  اللہ تعالی نے حدود میں رہتے ہوئے بیوی کی تادیب کا حکم فرمایا ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں سورۂ نساء کی آیت 34میں اللہ تعالیٰ نے نافرمان بیوی کی اصلاح کے علی الترتیب تین طریقے ذکر فرمائے ہیں:

یعنی عورت اگر نافرمان ہے یا اس کی جانب سے نافرمانی کااندیشہ ہے، تو پہلا درجہ اصلاح کا یہ ہے کہ نرمی سے اس کو سمجھائے ،اگربیوی  محض سمجھانے سے باز نہ آئے، تو دوسرا درجہ یہ ہے کہ  شوہر اپنا بستر علیحدہ کر دے، تاکہ وہ اس علیحدگی سے شوہر کی ناراضگی کا احساس کر کے اپنے فعل پر نادم ہو جائے، قرآن کریم میں '' فِی المَضَاجِعِ ''کا لفظ ہے، اس کامطلب  فقہاءکرام  نے  یہ لکھا ہے کہ جدائی صرف بستر میں ہو، مکان کی جدائی نہ کرے کہ عورت کو مکان میں تنہا چھوڑ دے ،اس سےفساد بڑھنے کا اندیشہ   زیادہ ہے۔ چناں چہ ایک صحابی سے روایت ہے:

"میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہماری بیویوں کا ہم پر کیا حق ہے؟ آپ نے فرمایا: جب تم کھاؤ تو انہیں بھی کھلاؤ اور تم پہنو تو انہیں بھی پہناؤ اور چہرے پر مت مارو، اگر اس سے علیحدگی کرنا چاہو تو صرف اتنی کرو کہ (بستر الگ کر دو) مکان الگ نہ کرو ۔"

اور جوعورت  اس سزا  سے بھی متاثر نہ ہو تو پھر اس کو معمولی مار مارنے کی بھی اجازت ہے، جس سے اس کے بدن پر اثر نہ پڑے، اور ہڈی ٹوٹنے یا زخم لگنے تک نوبت نہ آئے اور چہرہ پر مارنے کو مطلقاً منع فرما دیا گیا ہے۔چنانچہ "بخاری شریف"  کی روایت میں ہے:

 "نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو غلام کی طرح نہ مارے ،کیوں کہ یہ بات مناسب نہیں کہ اول تو اسے مارے پھر اخیر دن اس سے اپنی خواہش پوری  کرے۔"

 لیکن اگر تمام تر کوششوں اور نصائح کے باوجود  بیوی باز نہیں آتی تو اس صورت میں شوہر چاہے تو بیوی کو طلاق دے سکتا ہے، اس صورت میں اس پر کوئی ملامت نہیں ہوگی، طلاق دینے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ایسے پاکی کے زمانہ میں جس میں عورت سے صحبت نہ کی ہو، ایک طلاق دے کر اسے چھوڑ دیا جائے  اور عدت میں  قولی یا فعلی طور پر رجوع نہ کیا جائے تو اس کی عدت ختم ہوتے ہی زوجین کا نکاح ختم ہوجائے گا، مذکورہ طریقہ پر طلاق دینے کا فائدہ یہ ہے کہ اگر کچھ عرصہ بعد زوجین کو جدائی پر ندامت ہو اور دونوں دوبارہ سے ساتھ رہنا چاہیں تو بیوی کا کسی دوسرے شخص سے نکاح کیے بغیر ہی دوبارہ پہلے شوہر کے ساتھ نکاح کر کے رہنا جائز ہوگا، البتہ آئندہ کے لیے اس شوہر کے پاس صرف دو طلاقوں کا اختیار ہوگا۔ 

2۔اولاد کی نعمت سے مالا مال کرنا اوراس نعمت سے محروم رکھنا سب اللہ کے ہاتھ میں ہے،چونکہ آپ کی شادی کو ابھی تھوڑا ہی  عرصہ ہوا ہے،لہذا اس معاملے میں صبر سے کام لیں، اللہ تعالی کی بارگاہ میں میاں بیوی دونوں   خوب عاجزی سے دعا مانگیں، مقدر میں اولاد ہوگی تو اللہ اولاد سے ضرور نوازے گا،البتہ علاج کے باجود اولاد کی امید نہ ہواور آپ میں مزید انتظار کرنےکی طاقت بھی نہ ہو،توطلاق دیناضروری نہیں، بلکہ  اپنی بیوی کو  اعتماد میں لے کر اسے نکاح میں رکھتے ہوئے  دوسری شادی کرلیں، اگرآپ دونوں بیویوں کو رکھنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔اور  اگر دونوں کو ساتھ رکھنے کی مالی یا جسمانی طاقت نہ ہو تو  بوجہ ضرورت پہلی بیوی کو طلاق دینے کی گنجائش ہوگی اور وہ پورے مہر کی حق دار ہوگی،لیکن  حتی الامکان یہی کوشش کریں کہ اسے طلاق نہ دیں، تاکہ اس کے ذریعہ دونوں گھرانے سکون سے رہ سکیں اور آپس میں کسی قسم کی کوئی رنجشیں پیدا نہ ہو۔ 

3۔ واضح رہے کہ میاں بیوی کے درمیان جدائی ڈالنا، یا جدائی ڈالنے کی کسی بھی طرح کوشش کرنا بہت سنگین گناہ ہے،کسی ہنستے بستے گھرانے کو اجاڑنے کی دھمکی دینا ،خاص طور پر اپنے بیٹے کے گھر کو اجاڑنا کہیں سے بھی افعال مسلمانی میں سے نہیں ہے،بلکہ یہ شیطانی افعال ہیں،چنانچہ مسند احمد کی ایک روایت میں آتا ہے کہ:

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے شک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے ،پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے ،پس اُس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو ،اُن میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا ،تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی (بڑا ) کام سر انجام نہیں دیا ،پھر اُن میں سے ایک (اور) آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے (فلاں آدمی) کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈال دی ،شیطان اسے اپنے قریب کر کے یااپنے ساتھ چمٹاکرکہتا ہے کہ :ہاں !تو ہے(جس نے بڑا کام کیا ہے) ۔"

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے سسر کا اس طرح دھمکی دینا درست نہیں ہے،البتہ دونوں خاندان کے لوگ  آپس میں بیٹھ کر مفاہمت کے ذریعہ اس مسئلے کو حل کریں۔

4۔واضح رہے کہ شوہر پر شرعا بیوی کا نان نفقہ واجب ہے، اور نان نفقہ سے مراد بقدرِ  کفایت  کھانے پینے، کپڑے، اور مکان کا انتظام کرنا ہے، نان نفقہ کے علاوہ الگ سے جیب خرچ شوہر پر لازم نہیں ہے،اور نہ ہی اس کی کوئی خاص مقدار شریعت میں مقرر ہے،البتہ  اگر شوہر اپنی بیوی کے نان نفقہ (بقدرِ کفایت کھانے پینے، کپڑے، اور مکان) کا انتظام کرتا ہو تو شوہر پر شرعا بیوی کو الگ سے جیب خرچ دینا لازم تو نہیں ہوگا،لیکن رہائش،کپڑے اور کھانے کےعلاوہ بھی بیوی کی ضروریات ہوتی ہیں اس لیے اچھا یہی ہے کہ  اس کو  الگ سے ماہوار   کچھ جیب خرچ بھی حسبِ حیثیت دیا جائے، جس کو بیوی اپنی مرضی سے اپنی ضروریات میں استعمال کر سکتی ہو،تاہم بیوی اس کو اپنے نان نفقہ کا حصہ سمجھ کر مطالبہ کرنے کی مجاز نہیں ہوگی،  شوہر  اگر نہیں دیتا تو شرعا اسےملامت بھی نہیں کیا جا سکتا۔

5۔واضح رہے کہ شریعت مطہرہ نے ہر ایک کے لیے حدود مقرر کیے ہیں،لہذا آپ کی بہن کی نندوں کا اپنی بھابھی کے کاموں میں بلاوجہ نقص نکالنا،عیب جوئی کرنا ،اور خرچہ  وغیرہ سے متعلق باتیں کرنا جو کہ خاص طور پر میاں بیوی کے آپس کے معاملات ہیں،یہ افعال شرعا واخلاقا جائز نہیں ہے،ان افعال کی شریعت میں کافی مذمت بیان کی گئی ہے،چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے،صحابی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی ‌اللہ ‌علیہ ‌وآلہ ‌وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جب تم لوگوں کے عیوب تلاش کرو گے تو تم انہیں خراب کر دو گے"،اسی طرح ایک اور حدیث میں آتا ہےکہ:  "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایاکرتے تھے، اگر آپ کو کھانا اچھا لگتا تو اسے کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے"۔

لہذا نندوں کو  چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ان مذمتوں کامصداق نہ بنائیں،بلکہ اپنی گھریلوازداجی زندگی کی طرف توجہ دےاور بلاوجہ اپنے بھائی کی ازداوجی زندگی میں دخل اندازی کرکے اس کےگھر کو توڑنےاورخراب کرنے کا ذریعہ نہ بنیں،اور سسر کو بھی چاہیے کہ وہ بہو کو اپنی بیٹی سمجھ کر اس کا خیال رکھیں،بیٹیوں کی باتوں میں آکر ان کی ہم نوائی نہ کریں،اور اپنے بڑے ہونے کی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئےشرعی دائرہ کار کے اندر ،بہو،بیٹی سب کی اصلاح کریں۔

1۔احکام القرآن للجصاص میں ہے:

"قال الله تعالى: {واللاتي تخافون نشوزهن فعظوهن واهجروهن}۔۔۔وأما النشوز، فإن ابن عباس وعطاء والسدي قالوا: "أراد به معصية الزوج فيما يلزمها من طاعته"، وأصل النشوز الترفع على الزوج بمخالفته، مأخوذ من نشز الأرض وهو الموضع المرتفع منها. وقوله تعالى: {فعظوهن} ، يعني خوفوهن بالله وبعقابه. وقوله تعالى: {واهجروهن في المضاجع} قال ابن عباس وعكرمة والضحاك والسدي: "هجر الكلام". وقال سعيد بن جبير: "هجر الجماع". وقال مجاهد والشعبي وإبراهيم: "هجر المضاجعة"۔۔۔وقوله: {واضربوهن} ، قال ابن عباس: "إذا أطاعته في المضجع فليس له أن يضربها". وقال مجاهد: "إذا نشزت عن فراشه يقول لها اتقي الله وارجعي". وحدثنا محمد بن بكر قال: حدثنا أبو داود قال: حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي وعثمان بن أبي شيبة وغيرهما قالوا: حدثنا حاتم بن إسماعيل قال: حدثنا جعفر بن محمد عن أبيه عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه خطب بعرفات في بطن الوادي فقال: "اتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمانة الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله، وإن لكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه فإن فعلن فاضربوهن ضربا غير مبرح، ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف". وروى ابن جريج عن عطاء قال: "الضرب غير المبرح بالسواك"

(سورۃ النساء 34،‌‌باب النهي عن النشوز،ج:2،ص:237،ط:دار الكتب العلمية)

صحیح بخاری میں ہے:

"أنه أخبره عبد الله بن زمعة: أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يخطب، وذكر الناقة والذي عقر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:({إذا انبعث أشقاها}: انبعث لها رجل عزيز عارم، منيع في رهطه، مثل أبي زمعة). وذكر النساء فقال: (‌يعمد ‌أحدكم يجلد امرأته جلد العبد، فلعله يضاجعها من آخر يومه)"

(کتاب التفسیر،باب: تفسير سورة: {والشمس۔۔۔،ج:4،ص:1888،رقم:4685،ط:دار اليمامة- دمشق)

سنن ابی داؤد میں ہے:

"حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، أخبرنا أبو قزعة الباهلي، عن حكيم بن معاوية القشيري عن أبيه، قال: قلت: يا رسول الله، ما حق زوجة أحدنا عليه؟ قال: "أن تطعمها إذا طعمت، وتكسوها إذا اكتسيت - أو اكتسبت - ولا تضرب الوجه، ولا تقبح، ولا تهجر إلا في البيت"

(کتاب النکاح،باب في حق المرأة على زوجها،ج:3،ص:476،رقم:2142،ط: دار الرسالة العالمية)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(أما) الطلاق السني في العدد والوقت فنوعان حسن وأحسن فالأحسن أن يطلق امرأته واحدة رجعية في طهر لم يجامعها فيه ثم يتركها حتى تنقضي عدتها أو كانت حاملا قد استبان حملها"

(کتاب الطلاق،الباب الأول في تفسير الطلاق وركنه وشرطه وحكمه ووصفه وتقسيمه،ج:1،ص:348،ط:دارالفکر بیروت)

 بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."

(کتاب الطلاق،فصل في بيان حكم الطلاق،ج:3،ص:180،ط:دار الكتب العلمية)

 2۔فتاوی شامی میں ہے:

"وأما ‌الطلاق ‌فإن ‌الأصل ‌فيه ‌الحظر، بمعنى أنه محظور إلا لعارض يبيحه، وهو معنى قولهم الأصل فيه الحظر والإباحة للحاجة إلى الخلاص، فإذا كان بلا سبب أصلا لم يكن فيه حاجة إلى الخلاص بل يكون حمقا وسفاهة رأي ومجرد كفران النعمة وإخلاص الإيذاء بها وبأهلها وأولادها، ولهذا قالوا: إن سببه الحاجة إلى الخلاص عند تباين الأخلاق وعروض البغضاء الموجبة عدم إقامة حدود الله تعالى، فليست الحاجة مختصة بالكبر والريبة كما قيل، بل هي أعم كما اختاره في الفتح، فحيث تجرد عن الحاجة المبيحة له شرعا يبقى على أصله من الحظر، ولهذا قال تعالى {فإن أطعنكم فلا تبغوا عليهن سبيلا} [النساء: 34] أي لا تطلبوا الفراق، وعليه حديث «أبغض الحلال إلى الله الطلاق» قال في الفتح: ويحمل لفظ المباح على ما أبيح في بعض الأوقات أعني أوقات تحقق الحاجة المبيحة اهـ"

(کتاب الطلاق،ج:3،ص:228،ط:سعید)

3۔مسند احمد میں ہے:

"عن جابر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ‌إن ‌إبليس يضع عرشه على الماء، ثم يبعث سراياه، فأدناهم منه منزلة أعظمهم فتنة، يجيء أحدهم، فيقول: فعلت كذا وكذا، فيقول: ما صنعت شيئا، قال: ويجيء أحدهم، فيقول: ما تركته حتى فرقت بينه وبين أهله، قال: فيدنيه منه - أو قال: فيلتزمه - ويقول: نعم أنت أنت." 

‌‌(‌‌مسند جابر بن عبد الله رضي الله عنه،ج:22،ص:275،ط: مؤسسة الرسالة)

4۔فتاوی شامی میں ہے:

"وشرعا: (هي الطعام والكسوة والسكنى) وعرفا هي: الطعام (ونفقة الغير تجب على الغير بأسباب ثلاثة: زوجية، وقرابة، وملك) بدأ بالأول لمناسبة ما مر أو؛ لأنها أصل الولد (فتجب للزوجة) بنكاح صحيح، فلو بان فساده أو بطلانه رجع بما أخذته من النفقة بحر (على زوجها) ؛ لأنها جزاء الاحتباس."

(کتاب الطلاق، باب النفقات، ج:3، ص:572، ط:سعید)

 حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ فرماتے ہیں: 

"بیوی کا یہ بھی حق ہےکہ اس کو کچھ رقم ایسی بھی دے جس کو وہ اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرسکے۔ اس کی تعداد اپنی بیوی اور اپنی حیثیت کے موافق ہوسکتی ہے."

(منتخب انمول موتی، ص:142، ادارہ تالیفات اشرفیہ)

جیب خرچ دینے کی واقعی ضرورت ہے، مذکورہ عنوان کے تحت حضرت تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ لکھتےہیں:

’’چوں کہ دینی ودنیوی مصارف (اخرجات) کی حاجت اکثر واقع ہوتی رہتی ہے۔ اور عورتوں کے پاس اکثر جدا گانہ مال نہیں ہوتا اس لیے مردوں کو مناسب ہے کہ نفقہ واجبہ (اور مہر) کے علاوہ حسب حیثیت کچھ خرچ ایسے مواقع کے لیے علیحدہ بھی دیا کریں۔۔۔‘‘

(تحفہ زوجین،ص: 85، ط: المیزان) 

5۔تفسیر قرطبی میں ہے:

قوله تعالى:" ولا تجسسوا۔۔۔ومعنى الآية: خذوا ما ظهر ولا تتبعوا عورات المسلمين، أي لا يبحث أحدكم عن عيب أخيه حتى يطلع عليه بعد أن ستره الله. وفي كتاب أبي داود عن معاوية قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:] إنك إن اتبعت عورات الناس أفسدتهم أو كدت أن تفسدهم [فقال أبو الدرداء: كلمة سمعها معاوية من رسول الله صلى الله عليه وسلم نفعه الله تعالى بها. وعن المقدام بن معدي يكرب عن أبي أمامة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:] إن الأمير إذا ابتغى الريبة في الناس أفسدهم [. وعن زيد بن وهب قال: أتي ابن مسعود فقيل: هذا فلان تقطر لحيته خمرا. فقال عبد الله: إنا قد نهينا عن التجسس، ولكن إن يظهر لنا شيء نأخذ به. وعن أبي برزة الأسلمي قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:] يا معشر من آمن بلسانه ولم يدخل الإيمان قلبه لا تغتابوا المسلمين ولا تتبعوا عوراتهم، فإن من اتبع عوراتهم يتبع الله عورته ومن يتبع الله عورته يفضحه في بيته"

(سورۃ الحجرات،ج:16،ص:332 تا 333،ط:دار الكتب المصرية - القاهرة)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن معاوية قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌إنك ‌إذا ‌اتبعت ‌عورات ‌الناس ‌أفسدتهم» . رواه البيهقي، في شعب الإيمان

(وعن معاوية قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: إنك إذا اتبعت) من الاتباع ; أي تتبعت (عورات الناس) ; أي عيوبهم الخفية، وفي نسخة ابتغيت ; أي طلبت ظهور معايبهم وخللهم (أفسدتهم) ; أي حكمت عليهم بالفساد، أو أفسدت أمر المعاش والمعاد، والله رءوف بالعباد، قال الطيبي رحمه الله: وإنما عم في هذا الحديث بالخطاب بقوله: إنك ; وخص في الحديث السابق بقوله: إن الأمير ; لئلا يتوهم أن النهي مختص بالأمير، بل لكل من يتأتى من اتباع العورات من الأمير وغيره"

(كتاب الإمارة والقضاء،ج:6،ص:2414،رقم:3709،ط:دار الفكر، بيروت - لبنان)

بذل المجہود میں ہے:

"حدثنا محمد بن كثير قال: أخبرنا سفيان، عن الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة قال: ما عاب رسول الله صلى الله عليه وسلم طعاما قط) أما إظهار الكراهة الطبيعية كما في الضب فليس من العيب (إن اشتهاه أكله، وإن كرهه تركه)"

(أول كتاب الأطعمة،باب: في كراهية ذم الطعام،ج:11،ص:490،رقم:3763،ط:مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601100766

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں