بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذانِ ثانی کا حکم


سوال

مؤذن نے مسجد میں اذان دی اور وہ کسی کام سے باہر چلا گیا ،اتنے میں دوسرا شخص آیا اور اس نےغلطی سے دوسری اذان دی تو شرعاً دوسری اذان کا حکم کیا ہے؟ اور ایک دوسری بات جو مشہور ہے کہ جس مسجد میں غلطی سے دو اذان ہو جاے تو اس مسجد میں حضرت خضر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں یہ بات کہاں تک درست ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جب مسجد کے  مؤذن نے ایک مرتبہ اذان دے دی تو اذان کی سنت ادا ہوگئی،اس کے بعداگر کسی نے غلطی سے  دوبارہ اذان دے دی تو کوئی حرج نہیں، لیکن  مسجد کے مقرر شدہ مؤذن کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے مسجد انتظامیہ کی اجازت کے بغیر بڑھ کر اذان دینا انتشار اور تشویش کا باعث بن سکتا ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

 یہ بات درست نہیں کہ جس مسجد میں غلطی سے دو اذانیں دے دی جائیں تو اس مسجد میں حضرت خصر علیہ السلام تشریف لاتے ہیں۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(و كره تركهما) معا (لمسافر) و لو منفردا (و كذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) و لو بجماعة (و في بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلا يكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه (أو) مصل (في مسجد بعد صلاة جماعة فيه) بل يكره فعلهما و تكرار الجماعة إلا في مسجد على طريق فلا بأس بذلك جوهرة."

(کتاب الصلاۃ، باب الأذان،ج۱،ص۳۹۵،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100785

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں