بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان یا اقامت کے دوران مؤذن کو کوئی عذر پیش آجائے تو دوسرا شخص کے لئے اذان یا اقامت مکمل کرنے کا حکم


سوال

اذان دینے کے درمیان میں کوئی شخص بیمار ہو جائے یا کوئی  اور مسئلہ ہوجائے،  تو  کیا اذان یا اقامت شروع سے ادا کرنی چاہیے یا جہاں سے پہلے آدمی نے  چھوڑی تھی وہیں سے مکمل کی جائے گی؟

جواب

صورت مسئولہ میں اذان یا اقامت  کے دوران  اگر مؤذن کو کوئی ایسا عذر ( بے ہوشی طاری ہوجانا، قے کا آجانا  وغیرہ )  لاحق ہوجائے جس کے سبب اس کے لئے اذان یا اقامت مکمل کرنا محال ہوجائے تو اس صورت میں دوسرا شخص شروع سے اذان یا اقامت کا اعادہ کرے  گا،  تاہم اگر دوسرے شخص نے آگے بڑھ کر بقیہ اذان یا اقامت مکمل کردی، تو اس صورت میں باجماعت نماز ہوجائے گی،   البتہ نئے سرےا ذان  و اقامت کہنا ہی اولی ہے۔

نیز اگر اذان یا اقامت کے دوران وضو ٹوٹ جائے تو اذان یا اقامت درمیان میں ترک نہ کرے ، بلکہ  اسی حالت میں مکمل کرکے وضو کے لئے  جائے۔

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"إذا غشي على المؤذن ساعة في الأذان أو في الإقامة، قال محمد رحمه الله: أحب إلي أن يقتدي به من أولها؛ لأن لكل واحد منهما شبها بالصلاة، ولو غشي عليه في صلاة الأصل ثم أفاق، فإنه سوى بها ولا شيء، كذا ههنا، فلو لم يقتد بها، وأتمها جازت صلاته؛ لأنه لو تركهما جازت صلاته، فههنا أولى.

وكذلك لو رعف فيها أو أحدث، فذهب وتوضأ ثم جاء، فأحب إلي أن يقتدي بها من أولها لما ذكرنا أن لها شبها في الصلاة ولو أحدث في الصلاة فكان، الأولى أن يقتدي بها، ولو ... عليها يجوز كذا هنا؛ فلأنه ربما يشتبه على الناس أنه يؤذن أو يتعلم كلمات الأذان، قال مشايخنا، والأولى أن يتم الأذان إن أحدث في الأذان، ويتم الإقامة إن أحدث في الإقامة ثم يذهب ويتوضأ ويصلي؛ لأن ابتداء الأذان والإقامة مع الحدث جائز فأما بهما، أولى. ونزول الاشتباه الذي ذكرنا، لهذا إذا كان الأفضل إتمامهما قبل التوضىء، وكذا إذا مات المؤذن في الأذان أو ارتد، فالأولى أن يقتدي غيره؛ لأن بالموت انقطع عمله، وبالردة حبط عمله؛ ولأننا على المنقطع والباطل، وإن لم يقتد غيره وأتمه جاز وإذا أذن بتمامه ثم ارتد، فإن اعتدوا بأذانه وأمروا من يقيم، ويصلي بهم جاز. وإن استعادوا الأذان فذلك أولى؛ لأن بالردة بطل، وصار كأنه لم يؤذن أصلا ."

( كتاب الصلاة، الفصل السادس عشر في التغني والألحان، نوع آخر في تدارك الخلل الواقع فيه، ١ / ٣٤٨، ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102355

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں