بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان و اقامت کے درمیان دعا کرنے کی فضیلت خواتین کیسے حاصل کریں؟


سوال

چوں کہ عورت کے  لیے اقامت کہنا فرض نہیں ہے، لہذا اس بارے اذان اور اقامت کے درمیانی اوقات میں دعا مانگنے کی حدیث کے حوالے سے عورت کے لیے  کیا حکم ہے؟ یعنی وہ اذان کے بعد کتنے وقت کے اندر دعا مانگے؟

جواب

مطلوبہ سوال کے جواب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ باجماعت نماز کے لیے اقامت کہنا مَردوں کے لیے بھی فرض نہیں ہے، بلکہ سنت اور شعائرِ دین میں سے ہے۔  اب مطلوبہ سوال کا جواب ملاحظہ کیجیے:

احادیثِ مقدسہ کے ذخیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان کے اوقات میں دعا  رد نہیں ہوتی، جیسا کہ آپ نے سوال میں ذکر کیا ہے، اب خواتین  چوں کہ گھروں میں تنہا نماز پڑھتی ہیں اور  اُن کے لیے اقامت کا حکم نہیں ہے تو  اُن کو چاہیے کہ اذان کے فورًا بعد دعا کا اہتمام کر لیا کریں؛ کیوں کہ محدثین نے لکھا ہے کہ اس وقت دعا کا رد نہ ہونا اس وقت کی   عظمت و شرافت کی وجہ سے ہے  اور  اس  وقت کی عظمت  عورتوں کے حق میں بھی موجود ہے، اس لیے باری تعالیٰ کی ذات سے قوی امید ہے کہ  وہ اذان کے بعد جو دعا کریں گی ، وہ رد نہیں ہو گی۔

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 377):

"و عن أنس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لايرد الدعاء بين الأذان والإقامة)) رواه أبوداود، و الترمذي."

شرح رياض الصالحين (5/ 37):

"و الدعاء بين الأذان و الإقامة لايرد."

مرعاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 368):

"قال المظهر: إنما حرض عليه السلام أمته على صلاة النفل بين الأذانين؛ لأنّ الدعاء لايردّ بين الأذان والإقامة لشرف ذلك الوقت."

سبل السلام (1/ 195):

"[الدعاء بين الأذان والإقامة لايرد]

[وعن " أنس " قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايردّ الدعاء بين الأذان و الإقامة». رواه النسائي و صحّحه ابن خزيمة و الحديث مرفوع في سنن أبي داود أيضًا، و لفظه هكذا عن " أنس بن مالك " قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايردّ الدعاء بين الأذان والإقامة». قال المنذري: و أخرجه الترمذي و النسائي في عمل اليوم و الليلة. و الحديث دليل على قبول الدعاء في هذه المواطن؛ إذ عدم الرد يراد به القبول و الإجابة، ثمّ هو عام لكل دعاء، و لا بدّ من تقييده بما في الأحاديث غيره، من أنه ما لم يكن دعا بإثم أو قطيعة رحم. هذا وقد ورد تعيين أدعية تقال بعد الأذان، وهو ما بين الأذان والإقامة: أن يقول: «رضيت بالله ربًّا وبالإسلام دينًا وبمحمد رسولًا قال صلى الله عليه وآله وسلم: إن من قال ذلك غفر له ذنبه» : أن يصلي على النبي صلى الله تعالى عليه و آله وسلم بعد فراغه من إجابة المؤذن، قال ابن القيم في الهدي: أكمل ما يصلى به ويصلى إليه كما علم أمته أن يصلوا عليه."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202165

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں