بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان اور نمازمیں کتنا وقفہ رکھنا بہتر ہے؟


سوال

 اذان اور نماز کے درمیان کتنا وقفہ رکھنا بہتر ہے؟ بعض لوگ فجر کی نماز میں 55 منٹ کا وقفہ کرتے ہیں، اس کا شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

مغرب  کی نماز  کے علاوہ  باقی تمام نمازوں میں اذان اور  نماز ـ(اقامت) کے درمیان ایسی دو یا چار رکعات کی مقدار  فصل کرنا مستحب ہے جس کی ہر رکعت میں دس آیتیں پڑھی جا سکیں اور ہمیشہ  آنے والے نمازیوں کے لیے نماز کے مستحب وقت  کی رعایت کرے؛  تاکہ کھانا کھانے  والا کھا پی کر  فارغ ہو جائے اور قضائے حاجت کرنے والا اپنی ضروریات سہولت کے ساتھ پوری کر کے فارغ ہو  کر جماعت کے ساتھ شریک ہو جائے۔ عام طور پر مساجد میں  نماز ظہر، عصر اور عشاء میں پندرہ  سے بیس منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، یہ مناسب وقفہ ہے۔

نیز نماز فجر میں اسفار کا حکم ہے: (أسفروا بالفجر، فإنه أعظم للأجر)؛ اس لیے فجر کا مستحب وقت یہ ہے کہ: نماز فجر ایسے وقت میں  ادا کی جائے کہ خوب روشنی پھیل جائے اور  اتنا وقت باقی ہو کہ  اگر کسی وجہ سے نماز فاسد ہوجائے تو وضو کرکے فجر کی نماز دوبارہ وقت کے اندر سنت کے مطابق ادا کی جاسکے،  یعنی اس میں چالیس پچاس آیتوں کی تلاوت اچھی طرح کی جا سکے۔اس اندازے سے انتظامیہ مسجد جتنا وقت بھی مقرر کر لیا جائے وہ کافی ہو گا، 55 منٹ  مقرر کرنا ضروری نہیں ہے، اور یہ مطلقًا غلط بھی نہیں ہے، بلکہ علاقے کی نوعیت کو سامنے رکھ کر وقفہ دیا جائے، نیز یہ دیکھا جائے کہ اگر فجر کا وقت داخل ہوتے ہی اذان دی جائے گی تو لوگ جلدی جاگ جائیں گے اور اہتمام کے ساتھ  جماعت کے وقت سے پہلے ہی آجائیں گے تو اتنا وقفہ درست ہوگا، اور اگر ابتدائی وقت میں اذان دینے کے بعد لوگ جاگنے کے بجائے سوئے رہتے ہوں، جب کہ نماز سے کچھ دیر پہلے اذان دینے کی صورت میں زیادہ افراد نماز میں شریک ہوتے ہوں تو  55 منٹ سے کم وقفہ دینا مناسب ہوگا۔

 سنن الترمذي میں ہے:

"عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن رافع بن خديج، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «أسفروا بالفجر، فإنه أعظم للأجر»."

(باب ما جاء في الإسفار بالفجر، ج: 1، صفحه: 289، رقم الحدیث: 154، ط: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي - مصر)

 مسند الإمام أحمد بن حنبل میں ہے:

"حدثنا أبو خالد الأحمر، أخبرنا ابن عجلان، عن عاصم بن عمر بن قتادة، عن محمود بن لبيد، عن رافع بن خديج، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "أسفروا بالفجر، فإنه أعظم للأجر أو لأجرها."

(حدیث رافع بن خدیج رضي اللہ تعالیٰ عنه، ج: 28، صفحه: 514، رقم الحدیث: 1779، ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"يستحب تأخير الفجر ولا يؤخرها بحيث يقع الشك في طلوع لشمس بل يسفر بها بحيث لو ظهر فساد صلاته يمكنه أن يعيدها في الوقت بقراءة مستحبة. كذا في التبيين وهذا في الأزمنة كلها إلا صبيحة يوم النحر للعاج بالمزدلفة فإن هناك التغليس أفضل. هكذا في المحيط."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في بيان فضيلة الأوقات، ج: 1، صفحہ: 51 و52، ط: دارالکفر)

وفیہ ایضا:

"مقدار ركعتين أو أربع يقرأ في كل ركعة نحوًا من عشر آيات، كذا في الزاهدي. و الوصل بين الأذان و الإقامة مكروه بالاتفاق ... ينبغي أن يؤذن في أول الوقت ويقيم في وسطه حتى يفرغ المتوضئ من وضوئه والمصلي من صلاته والمعتصر من قضاء حاجته. كذا في التتارخانية ناقلًا عن الحجة."

(کتاب الصلاۃ، الفصل الثاني في كلمات الأذان والإقامة وكيفيتهم، ج: 1 صفحہ: 56 و57، ط: دار الفکر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144204200168

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں