بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان میں انگوٹھے چومنے کا حکم


سوال

اذان میں'اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللّٰہ" پر انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر لگانا کیسا ہے؟ بعض حضرات اسے مستحب قرار دیتے ہیں، اور دلیل میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت جو کہ  جلالین کے حاشیہ  میں ہے،اورطحطاوی وغیرہ کا حوالہ دیتے ہیں، کیا یہ درست ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اذان کے وقت انگوٹھے چومنے اورآنکھوں سے لگانے کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے اورنہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں اوربعد کے خیرالقرون میں اس کاثبوت ملتاہے،اسی وجہ سے اس عمل کو  علما نے ناجائزاوربدعت بتایاہے ،اورجن احادیث سے اس بارے میں استدلال کیاجاتاہے ان کے بارے میں محدثین کا اتفاق ہے كه  یہ مرفوعاً ثابت نہیں ہیں، بلکہ بتصریحِ محدثین یہ  سب روایات موضوع  (من گھڑت) یا انتہائی ضعیف ہیں ،اورعلامہ شامی  اور علامہ طحطاوی رحمہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ اورروایات کے مأخذ میں کنز العباد، قہستانی، کتاب الفردوس اور فتاویٰ صوفیہ کا حوالہ دیا ہے اورعلامہ طحطاوی رحمہ اللہ نے کتاب الفردوس اور کنز العباد کا حوالہ دیا ہے ،مجموعی طور پر مذکورہ تمام کتب غیر معتبر ہیں، ان کتب کے صرف وہ مسائل معتبر شمار ہوں گے، جن کی تائید دوسری معتبر کتب سے ہو جائے۔

نیز حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا معمول انگوٹھے چومنے کا نہیں تھا، بعض مفسرین اور دیلمی نے لکھا ہے کہ ان کا یہ عمل تھا،  لیکن یہ بے سند ہے، علامہ محمد طاہر پٹنی رحمہ اللہ نے اسے موضوعات میں ذکر کیا ہے، اسی طرح ملا علی قاری رحمہ اللہ نے بھی اسے اپنی موضوعات پر لکھی گئی کتاب ’’المصنوع في معرفة الحدیث الموضوع‘‘ میں ذکر کیا ہے، علامہ طاہر پٹنی رحمہ اللہ نے اسے نقل کرنے کے بعد فرمایا: "لایصح"، وکذا ماورده أبوالعباس۔

(تذکرۃ الموضوعات :ص:۳۴،ط: کتب خانہ مجیدیہ ملتان) ،(المصنوع فی معرفۃ الحدیث الموضوع ، ص :۱۶۸،ط: ایچ ایم سعید کراچی)

لہذا اسے سنت  یا مستحب کہنا یا کسی جلیل القدر صحابی کا عمل قرار دینا درست نہیں ہے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"[تتمة] يستحب أن يقال عند سماع الأولى من الشهادة: صلى الله عليك يا رسول الله، وعند الثانية منها: قرت عيني بك يا رسول الله، ثم يقول: اللهم متعني بالسمع والبصر بعد وضع ظفري الإبهامين على العينين فإنه عليه السلام يكون قائدا له إلى الجنة، كذا في كنز العباد. اهـ. قهستاني، ونحوه في الفتاوى الصوفية. وفي كتاب الفردوس «من قبل ظفري إبهامه عند سماع ‌أشهد ‌أن ‌محمدا ‌رسول ‌الله في الأذان أنا قائده ومدخله في صفوف الجنة» وتمامه في حواشي البحر للرملي عن المقاصد الحسنة للسخاوي، وذكر ذلك الجراحي وأطال، ثم قال: ولم يصح في المرفوع من كل هذا شيء. ونقل بعضهم أن القهستاني كتب على هامش نسخته أن هذا مختص بالأذان، وأما في الإقامة فلم يوجد بعد الاستقصاء التام والتتبع".

(كتاب الصلوة ،باب الاذان،ج:1،ص:398،ط:سعيد)

المقاصد الحسنۃ میں ہے :
"حديث ( مسح العينين بباطن أنملتي السبابتين بعد تقبيلهما عند سماع قول المؤذن أشهد أن محمدا رسول الله مع قوله أشهد أن محمدا عبده ورسوله رضيت بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد نبيا ) :ذكره الديلمي في الفردوس من حديث أبي بكر الصديق أنه لما سمع قول المؤذن أشهد أن محمد رسول الله قال هذا، وقبل باطن الأنملتين السبابتين ومسح عينيه، فقال صلى الله عليه وسلم: من فعل مثل ما فعل خليلي فقد حلت عليه شفاعتي، لا يصح. وكذا ما أورده أبو العباس أحمد ابن أبي بكر الرداد اليماني المتصوف في كتابه "موجبات الرحمة وعزائم المغفرة" بسند فيه مجاهيل مع انقطاعه، عن الخضر عليه السلام أنه: من قال حين يسمع المؤذن يقول أشهد أن محمد رسول الله: مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله صلى الله عليه وسلم، ثم يقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يرمد أبدا، ثم روى بسند فيه من لم أعرفه۔۔۔
ونقل في هذا الموضع ، بعضا من الحكايات في ذلك ، ثم قال :
" ولا يصح في المرفوع من كل هذا شيء " اھ"

(حرف الميم ،ص:606، رقم الحديث : 1022،ط: دار الكتاب العربي)

الفوائد المجموعہ میں ہے :
" حديث من قال حين يسمع أشهد أن محمدا رسول الله مرحبا بحبيبي وقرة عيني محمد بن عبد الله ثم يقبل إبهاميه ويجعلهما على عينيه لم يعم ولم يرمد أبدا " : قال في التذكرة : لا يصح " 

(کتاب الصلوۃ، رقم الحدیث : 18،19،ص 20،ط: العلمیة) 

النافع الکبیر علی الجامع الصغیر مقدمة الجامع الصغیر" میں ہے:

"وکذا”کنز العباد “فإنہ مملوءٌ من المسائل الواھیة والأحادیث الموضوعة، لا عبرةَ لہ، لا عند الفقھاء ولا عند المحدثین، قال علي القاري في طبقات الحنفیة: ”علي بن أحمد الغوري ولہ ”کنز العبادفي شرح الأوراد“، قال العلامة جمال الدین المرشدي: فیہ أحادیث موضوعة لا یحل سماعھا، انتھیٰ․"

( الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء والکتب،ص:27، ط:إدارة القرآن کراتشي)

وفيه ايضاً:

"وقال المولیٰ عصام الدین في حق القھستاني: ”إنہ لا یعرف الفقہَ ولا غیرَہ بین أقرانہ ویوٴیدہ أنہ یجمع في شرحہ ھٰذا بین الغث والسمین، والصحیح والضعیف من غیر تصحیح ولا تدقیق، فھو کحاطب اللیل جامع بین الرطب والیابس في النیل"․

( الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء والکتب،ص:27، ط:إدارة القرآن کراتشي)

وفيه ايضاً:

"والحکم في ھٰذہ الکتب الغیر المعتبرة أن لا یُوٴخَذ منھا ما کان مخالفاً لکتب الطبقة الأعلیٰ، ویُتوقَّفُ في ما وُجِد فیھاما لم یدخُل ذالک في أصلٍ شرعيٍ"․

( الفصل الأول في ذکر طبقات الفقھاء والکتب،ص:27، ط: إدارة القرآن کراتشي)

کشف الظنون عن أسامی الکتب والفنون میں ہے:

”الفتاویٰ الصوفیة في طریق البھائیة“ لفضل اللہ محمد بن أیوب المنتسب إلیٰ ماجو․ قال صاحب کشف الظنون: قال المولیٰ البرکلي: الفتاویٰ الصوفیة لیست من الکتب المعتبرة، فلا یجوز العمل بما فیھا إلا إذا علم مواقفقتھا للأصول“․

( حرف الفاء:ج:2، ص:1225،  ط:دار إحیاء التراث العربي، بیروت)

" فتاویٰ الحامدیة "میں ہے:

"والقھستاني“ کجارف سیل وحاطب لیل․"

( کتاب الحظر والإباحة: ج:2، ص:356،ط: حقانیة․وکذا في عمدة الرعایةعلی شرح الوقایة، ص:10، ط: مکتبة إمدادیة، ملتان)

منھاج السنة النبویةلابن تیمیة"  میں ہے:

”کتاب الفردوس فیه من الأحادیث الموضوعات ما شاء اللہ ومصنفه شیرویه بن شھردار الدیلمي وإن کان من طلبة الحدیث ورواته، فإن هذہ الأحادیث التي جمعھا وحذف أسانیدها نقلھا من غیر اعتبار لصحیحھا و ضعیفھا وموضوعھا، فلھٰذا کان فیه من الموضوعات أحادیث کثیرة جداً."

(الفصل الخامس، ج:7، ص:110، ط:موٴسسة قرطبة)

وفيه ايضاً:

”کتاب الفردوس للدیلمي فیه موضوعات کثیرة، أجمَع أهلُ العلم علی أن مجرد َکونِه رواہ لا یدل علي صحة الحدیثِ“․

(الفصل الثاني عشر، ج:5، ص:39، ط:موٴسسة قرطبة)

جمع الجوامع میں ہے:

 "کل ما عزي لھٰوٴلاء الأربعة-أي: الضعفاء للعقیلي، الکامل لابن عدي، التاریخ للبُغدادي، التاریخ لابن عساکر- أو للحکیم الترمذي في نوادر الأصول أو للحاکم في تاریخہ أو لابن جارود أو للدیلمي في مسند الفردوس فھو ضعیفٌ، فلیستغنِ بالعزو إلیھا أو إلیٰ بعضھا عن بیان ضُعفه"

(دیباجة قسم الأقوال من جمع الجوامع (الجامع الکبیر)، ج:1، ص:21، ط: دارالکتب العلمیة)

فتاوی دارالعلوم دیوبند میں ہے:

"سوال:اذان میں بوقتِ شہادتین انگوٹھا چومنا اور آنکھوں سے لگانا اور قرۃ عینی بک یا رسول اللہ پڑھنا کیسا ہے۔

جواب: علامہ شامی نے کنز العباد سے نقل کیا ہے کہ شہادتین کے وقت اذان میں ایسا کرنا مستحب ہے، پھر جراحی سے نقل کیا ہے، ولم يصح في المرفوع من كل هذا شيئ، اور نہیں صحیح ہوا مرفوع  حدیث میں اس میں سے کچھ، اس سے معلوم ہوا کہ سنت سمجھ کر یہ فعل کرنا صحیح نہیں ہے، چونکہ اس زمانہ میں اکثر لوگ اس کو سنت سمجھ کر کتے ہیں اور تارک کو ملام ومطعون کرتے ہیں، اس لیے اس کو علمائے محققین نے متروک کردیا ہے۔"فقط

(کتاب الصلاۃ، الباب الثانی فی الاَذان،ج:2، ص:71، ط:دارالاِشاعت)

کفایت المفتی میں ہے:

"سوال:بے شک حدیث صدیق اکبر(رضی اللہ عنہ)موضوع ہےلیکن شامی نے لکھا ہے کہ تقبیل ظفر ابہامین عند استماع اسمہﷺ عند الاَذان جائز ہے؟

جواب:شامی نے اس مسئلے کو قہستانی سے اور قہستانی نے کنزالعباد سے نقل کیا ہے، نیز شامی نے فتاویٰ صوفیہ کا حوالہ دیا ہے ، کنز العباد اور فتاویٰ صوفیہ دونوں قا بلِ فتویٰ دینے کے نہیں ہیں، اور جب کہ حدیث کا ناقابلِ استد لال ہونا ثابت ہے تو پھر اس کو سنت ہا مستحب سمجھنا بے دلیل ہے ،اور اس کے تارک کو ملامت یا طعن کرنا مذموم ہے، زیادہ سے زیادہ اس کو بطورِ علاجِ رمد کے ایک عمل سمجھ کر کوئی کرلے تو مثل دیگر اعمال کے مباح ہوسکتاہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت ثابت نہیں۔" 

(کتاب الصلاۃ، پہلا باب اذان و تکبیر، اذان میں بوقتِ شہادتین انگوٹھے چومنا، ج:3، ص:47، ط:دارالاِشاعت)

فقط واللہ اَعلم


فتوی نمبر : 144411102646

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں