بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان میں ایک ہاتھ اٹھانے سے اذان کا حکم


سوال

کیااذان میں صرف ایک ہاتھ کان تک رکھےاور ایک ہاتھ لٹکائے رکھے درست ہے؟اس کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  اذان دیتے وقت موٴذن کا دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاکر، دونوں کانوں میں انگلی ڈالنا مستحب ہے، لازم نہیں ہے،اس کی وجہ خود حدیثِ مبارک  میں مذکور ہے کہ :  نبی کریم  ﷺ نے حضرت بلال  رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم فرمایا کہ اذان دینے کے وقت اپنی دونوں انگلیوں کو اپنے دونوں کانوں میں ڈال کر اذان دیا کریں۔ فرمایا: ’’اس طرح کرنے سے تمہاری آواز بلند ہوگی‘‘۔اس کے بغیر بھی اذان صحیح ہوجاتی ہے؛لہذا اگر کوئی شخص ایک ہاتھ کان تک اٹھائے اور دوسرا ہاتھ  لٹکائے رکھے تو اس  طرح بھی اذان ہوجائے گی ،لیکن مستحب کے خلاف ہو گا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(ويجعل) ندبا (أصبعيه في) صماخ (أذنيه) فأذانه بدونه حسن، وبه أحسن

(قوله: ويجعل أصبعيه إلخ) لقوله - صلى الله عليه وسلم - لبلال - رضي الله عنه - «اجعل أصبعيك في أذنيك فإنه أرفع لصوتك» وإن جعل يديه على أذنيه فحسن؛ لأن أبا محذورة - رضي الله عنه - ضم أصابعه الأربعة ووضعها على أذنيه وكذا إحدى يديه على ما روي عن الإمام إمداد وقهستاني عن التحفة.(قوله: فأذانه إلخ) تفريع على قوله ندبا. قال في البحر: والأمر أي في الحديث المذكور للندب بقرينة التعليل، فلذا لو لم يفعل كان حسنا.فإن قيل: ترك السنة فكيف يكون حسنا؟ . قلنا: إن الأذان معه أحسن، فإذا تركه بقي الأذان حسنا كذا في الكافي اهـ فافهم".

(کتاب الصلاۃ،باب الاذان،ج:1،ص:388،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407102200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں