بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان میں لفظ اللہ کو کھنچنے کی مقدار


سوال

اذان میں لفظ "اللہ" کو کتنی مقدار میں کھینچ سکتے ہیں ؟اور اذان میں فقہی قواعد و مسائل چلیں گے یا قرآت کے قواعد و ضوابط چلیں گے ؟ آج کل کے مؤذنین بہت زیادہ مقدار میں کھینچتے ہیں، ان کے متعلق کیا حکم ہے ؟

جواب

ہمارے دار الافتاء سے 1426ہجری بمطابق 2005 میں مفتی ابو بکر سعید الرحمن اور مفتی عبد القادر صاحب کی تصحیح و تصدیق سے اذان میں لفظ  جلالہ "اللہ "کو کھنچنے سے متعلق ایک فتوی جاری ہوا تھا ،جس کو بعینہ نقل کیا جاتا ہے ،جس میں آپ کے سوال کا تشفی بخش جواب  ہے ۔

فتوی ملاحظہ فرمائیں :

" واضح رہے کہ لفظ جلالہ ’’ اللہ ‘‘ کا مد ، مد اصلی ہے ، جس کی مقدار حرکتیں یعنی ایک الف کے برابر ہے ، اس لیے اداء ِ تلاوت اور قراء تِ قرآن کریم میں تو ایک الف پر زیادتی سراسر خلافِ  قاعدہ اور ممنو ع  ہے ۔

            البتہ غیرِ قرآن بالخصوص کلماتِ اذان میں اس زیادتِ مدِ اصلی کی ضرور وسعت و گنجائش ہے ، تاکہ عظمت و جلالتِ شان اور مقصدِ اعلامونداء بدرجۂ اتم حاصل ہو ، اس پر ایک قوی شاہد و قرینہ یہ ہے کہ اہل عرب کے ہاں ذکر اور  دعا میں ، اور مدد طلب کرتے وقت مدِ معنوی کا استعمال کتبِ فن میں نہایت صراحت سے منقول ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض مواقع پر مدّ کو اپنی اصلی مقدار سے زیادہ کھینچنا جائز ہے ۔

 الاتقان فی علوم القرآن  میں ہے :

   "وأمّا السبب المعنوي فھو قصد المبالغة في النفي ، وھو سبب قوي مقصود عند العرب وھذا مذھب معروف عند العرب ؛ لأنّھا تمد عند الدعاء و عند الاستغاثة وعند المبالغة في نفي شيءٍ."

(الاتقان في علوم القرآن ، النوع الثاني والثلاثون ، في المد والقصر ،ج:1،ص:97، ط: مصطفی البابی مصر)

 کتاب النشر فی القرا ءت العشر میں ہے :

"واستحب العلماء المحققون مد الصوت بلا إلٰه إلاَّ اللّٰہ إشعاراً بما ذکرنا وبغیرہ ، قال الشیخ محي الدین النووي رحمه اللّٰہ في الأذکار : ولھٰذا کان المذھب الصحیح المختار استحباب مد الذاکر قوله : ’’ لاإلٰه إلاَّ اللّٰہ ‘‘ ؛ لما ورد من التدبر … قال : وأقوال السلف وأئمة الخلف في مد هذا مشھورۃ. "

(النشر في القراءات العشر ، باب المد والقصر ، فصل ،ج:1،ص:269،ط: دار الکتب العلمیة بیروت)

            مذکورہ بالا عبارات کی روشنی میں اگر ’’اللہ  أكبر‘‘کو بغرضِ ذکر کہا جائے تب بھی مد کے دراز کرنے کی اجاز ت معلوم ہوتی ہے ، اور اگر دعا اور ندا کی غرض سے کہا جائے تو بدر جہ أولیٰ مد  کی درازی کا جواز ثابت ہوتا ہے ۔

        مزید یہ ہے کہ بعض جدید کتب میں لفظ ’’ اللہ ‘‘ میں مد کرنے کے لیے مستقل نام ( مدِ تعظیمی ) وضع کیا گیا ہے ۔

چناں چہ ’’ جواہر التجوید ‘‘ میں  ہے :

’’ مد تعظیمی جس کو مدِ مبالغہ کہتے ہیں اس واسطے کہ اس مد میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی تعظیم و عظمت اور شانِ جلالت معلوم ہوتی ہے جو اسمِ جلالہ لفظ ’’ اللہ ‘‘ ، ’’ رحمن ‘‘ اور ’’ قھّار ‘‘ وغیرہ میں کیا جاتا ہے،  لیکن کسی قاری کے نزدیک معمول و مختار نہیں۔(یعنی قاری صاحبان کے ہاں یہ مدِ معنوی غیر قرآن میں مستعمل ہے،لیکن قرآن مجید میں نہیں۔)‘‘

   ( جواہر التجوید)

             امام القراء حضرت مولانا قاری عبد الرحمن رحمہ اللہ اپنے معر کۃ الآراء رسالہ تجوید ’’ تحفہ ندریہ‘‘ میں فرماتے ہیں :

            "چہارم مدِ تعظیم چناںچہ بعضے در اسم ’’ اللہ ‘‘ و ’’ رحمن ‘‘ مد می کشند ۔"

(تحفہ ندریۃ)

            کتبِ تجوید  کے علاوہ اگر فقہ و فتاویٰ کی طرف مراجعت کی جائے تو ’’ البحر الرائق ‘‘ میں ہے:

"ویترسل فیه ویحدر فیھا، وفسر الترسل في’’ الفوائد‘‘ بإطالة  کلمات الأذان ، والحدر قصرھا، ولأنّ المقصود من الأذان الإعلام والترسل بحاله ألیق."

(البحر الرائق، کتاب الصلاۃ ، باب الأذان ، ج:1،ص:257، ط: سعید کراچی)

            مذکورہ بالا دلائل سے یہ  بات تو  واضح ہوگئی کہ لفظ ’’ اللہ ‘‘ میں مدکو خوب دراز کیا جاسکتا ہے ، لیکن اس کی درازی کی زیادہ سے زیادہ مقدار کیا ہونی چاہیے کہ جس مقدار اور حد سے  مدِ معنوی کو زیادہ کھینچنا ناجائز ہو؟

            تو اس کے جواب میں ایک اصولی بات سمجھ لینی چاہیے کہ کتبِ تجوید میں جو قواعد ذکر کیے جاتے ہیں وہ صرف اداءِ  تلاوتِ قرآن اور قراء تِ قرآن مجید کے متعلق ہوتے ہیں ؛ اس لیے قرآنِ مجید میں تو ان قواعد کی رعایت انتہائی ضروری ہے ۔ لیکن غیرِ قرآن کے لیے وہ قواعد منصوص اور مصرّح نہیں ، بلکہ غیرِ قرآن کے کلمات کو کلماتِ قرآن پر قیاس کرکے وہ احکام ثابت کیے جاسکتے ہیں ۔

            لہٰذا محض مسائل اور اصولِ قراء ت پر قیاس کرتے ہوئے راجح قول کے مطابق مد کی زیادہ سے زیادہ مقدار پانچ الف  ہے ۔

جیساکہ ’’ کتاب النشرفي القراء ات العشر ‘‘ میں ہے :

"والمرتبة الخامسة فوقھا ( أي فوق الرابعة ) قلیلاً، وقدرت بخمس ألفات."

( النشر في القراء ات العشر ، باب المد والقصر ،ج:1،ص:254،ط: دار الکتب العلمیة بیروت )

            اور بعض حضرات نے زیادہ سے زیادہ مقدار سات الف تک بتلائی ہے ، چناںچہ قاری فتح محمد صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’ مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال ‘‘ میں سات الف کے قول کو نقل کیا ہے ۔

( مفتاح الکمال شرح تحفۃ الأطفال،ص:66،ط:میر محمد کتب خانہ)

            لہٰذا صورتِ مسئولہ میں کلمات اذان کو تلاوتِ قرآن پر محض قیاس کرتے ہوئے تو لفظ ’’ اللہ ‘‘ میں سات الف سے زیادہ کھینچنا  ،اور لفظ "اشہد ان "میں ایک الف سے زیادہ غنہ کرنا خلافِ اولیٰ قرار دیا جائے گا ۔

            لیکن مقصدِ ’’ إعلام ‘‘ کو بطورِ اتم حاصل کرنے اور عمومِ بلویٰ کا لحاظ کرتے ہوئے قیاس کو چھوڑا جائے گا اور اس زیادتی کو اس وقت تک جائز قرار دیا جاسکتا ہے ، جب تک وہ کلمات عربیت کی حد سے نہیں نکلتے ہوں۔ 

(ماخذ: فتاوی جامعہ بنوری ٹاؤن ، غیر مطبوعہ) 

باقی اگر کوئی مؤذن صحیح طریقہ سے  اذان نہ دیتا ہو  کہ کلماتِ اذان قواعدِ عربی کی حد سے تجاوز کر جاتے ہوں تو اس  مؤذن کے لیے الفاظ درست کرنے سے پہلے اذان دینا مکروہ  ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا لحن فيه) أي تغني بغير كلماته فإنه لا يحل فعله وسماعه كالتغني بالقرآن وبلا تغيير حسن، وقيل لا بأس به في الحيعلتين(قوله: بغير كلماته) أي بزيادة حركة أو حرف أو مد أو غيرها في الأوائل والأواخر قهستاني.(قوله: وبلا تغيير حسن) أي والتغني بلا تغيير حسن، فإن تحسين الصوت مطلوب، ولا تلازم بينهما بحر وفتح.(قوله: وقيل) أي قال الحلواني: لا بأس بإدخال المد في الحيعلتين؛ لأنهما غير ذكر، وتعبيره بلا بأس يدل على أن الأولى عدمه."

(کتاب الصلاۃ ،باب اذان،ج:1،ص:387،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100233

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں