بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے وقت اگر کوئی شخص اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟


سوال

اذان کے وقت اگر کوئی شخص اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لے تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟

جواب

اذان شعائرِ اسلام میں سے ہے،اذان میں اللہ تعالي کی کبریائی ، توحید و رسالت کی گواہی ، نماز اور کامیابی کی طرف دعوت   اور معبودان باطلہ سے بیزاری کا اعلان ہوتا ہے،   اگر کوئی شخص اذان کی آواز سن  کر کانوں میں انگلیاں ڈالتا ہے، اگر یہ شخص بلا کسی عذر کے ایسا کرتا ہے، تو یہ  شیطانی عمل ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شیطان جب اذان کی آواز سنتا ہے، تو  ہوا چھوڑتا ہوا بھاگتا ہے جہاں تک اذان کی آواز پہنچتی ہے۔تو ایسے شخص کو فورا توبہ واستغفار کرنا چاہئے  ،البتہ اگر کوئی شخص عذر  کی وجہ سے(مثلا: لاؤڈ اسپیکر کی آواز بہت تیز ہے، یا سر میں   یا  کانوں میں درد ہے)  کانوں میں انگلیاں ڈالتا ہے  اذان سے بے زاری کا اظہار مقصود نہیں ہے تو ایسا شخص معذور شمار ہوگا۔

"عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال: إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان، وله ضراط حتى لا يسمع التأذين، فإذا قضي النداء أقبل حتى إذا ثوّب بالصلاة أدبر حتى إذا قضي التثويب أقبل حتى يخطر بين المرء ونفسه يقول: اذكر كذا، اذكر كذا لما لم يكن يذكر حتى يظل الرجل لا يدري كم صلى".

(أخرجه البخاري في باب في فضل التأذين (1/ 220) برقم (583)، ط. دار ابن كثير ، اليمامة - بيروت، الطبعة الثالثة : 1407 = 1987)

عمدة القاری میں ہے:

"وقال القرطبي وغيره: الأذان على قلة ألفاظه مشتمل على مسائل العقيدة؛ لأنه بدأ بالأكبرية، وهي تتضمن وجود الله تعالى وكماله، ثم ثنى بالتوحيد ونفي الشريك، ثم بإثبات الرسالة، ثم دعا إلى الطاعة المخصوصة عقيب الشهادة بالرسالة؛ لأنها لا تعرف إلا من جهة الرسول، ثم دعا إلى الفلاح وهو البقاء الدائم، وفيه الإشارة إلى المعاد، ثم أعاد ما أعاد توكيدا. ويحصل من الأذان الإعلام بدخول الوقت، والدعاء إلى الجماعة، وإظهار شعائر الإسلام".

(عمدة القاري شرح صحيح البخاري: كتاب الأذان (5/ 102)، ط. دار إحياء التراث العربي - بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144312100360

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں