بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے دوران بات کرنا


سوال

اذان کے دوران بات کرنا کیسا فعل ہے؟ اور اس کے متعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی، کوئی ممانعت یا وعید بھی آئی ہے؟

جواب

اذان کے دوران خاموشی سے اذان کو سننا اور اذان کا جواب دینا مستحب ہے، اور  اذان کے وقت باتیں کرنا خلافِ اولی ہے، البتہ اگر کوئی تعلیم و تعلم میں مصروف ہو  اور درمیان میں اذان شروع ہوجائے  تو اس کے لیے علم سے متعلق باتوں میں مصروف رہنا مکروہ نہیں ہوگا، نیز فقہاءِ کرام نے بعض دیگر مواقع بھی شمار کیے ہیں جہاں اذان کے دوران ان کاموں میں مشغول رہنے کی اجازت ہے۔

اذان کے دوران بات کرنے کے متعلق وعید یا ممانعت مستند احادیث میں نہیں ہے،  نیز بعض مواقع پر نبی کریم ﷺ سے ضرورتاً اذان کے دوران گفتگو کرنا بھی ثابت ہے۔

عمدۃ القاری میں ہے :

"وأخرجه الطحاوي من حديث عبد الله قال: (كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره فسمع مناديًا وهو يقول: الله أكبر الله أكبر، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: على الفطرة، فقال: أشهد أن لا إله إلا الله. فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: خرجت من النار، فابتدرناه فإذا هو صاحب ماشية أدركته الصلاة فأذن لها). قال الطحاوي: فهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم قد سمع المنادي ينادي وقال غير ما قال، فدل ذلك على أن قوله: (إذا سمعتم المنادي فقولوا مثل الذي يقول)، إن ذلك ليس على الإيجاب، وأنه على الاستحباب والندبة إلى الخير وإصابة الفضل". (۵ / ۱۱۸، الناشر: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

حاشیہ طحطاوی میں ہے :

"وحكى في التجنيس الإجماع على عدم كراهة الكلام عند سماع الأذان اهـ أي تحريماً وفي مجمع الأنهر عن الجواهر: إجابة المؤذن سنة. وفي الدرة المنيفة: أنها مستحبة على الأظهر". ( ص ۲۰۲، دار الکتب العلمیۃ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201690

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں