بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

(تثویب) اذان کے بعد نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مختلف جملے کہنے کا حکم


سوال

نماز کی طرف راغب کرنے یا بلانے کے لیے صرف اذان کافی ہے؟کیوں کہ کچھ لوگ فجر کی نماز کے اوقات میں،" اٹھ جائیے!"،" نماز کا وقت ہوگیا ہے!"،"نماز نیند سے بہتر ہے !"،تیز آواز سے بولتے ہیں،کیا یہ عمل درست ہے؟یا صرف اذان کافی ہے؟اصلاح فرمائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں اذان  کے بعد سوئے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے یا اپنے کاموں میں مشغول افراد کو  نماز کی طرف متوجہ کرنے کے لیےمذکورہ جملے کہنا جائز ہے،لیکن موجودہ زمانہ میں جہاں مائیک کا انتظام ہے، وہاں تثویب کی ضرورت نہیں ہے، اس لیے اگر چہ متاخرین نے  مغرب کے علاوہ چار نمازوں میں اس کو جائز  بلکہ مستحسن  قراردیا ہے، لیکن ایک جائز ، بلکہ مستحب عمل کو بھی لازم اور ضروری سمجھ کر کیا جائے اور نہ کرنے والے پر نکیر کی جائے تو وہ بدعت بن جاتا ہے،  لہذا  اس عمل کو لازم اور ضروری نہ سمجھا جائے، اور جہاں اس کو لازم اور ضروری سمجھا جاتا ہو، وہاں  اس کی مستقل عادت  ترک کی جائے۔

الدر المختار مع حاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(ويثوب) بين الأذان والإقامة في الكل للكل بما تعارفوه

(قوله: بين الأذان والإقامة) فسره في رواية الحسن بأن يمكث بعد الأذان قدر عشرين آية ثم يثوب ثم يمكث كذلك ثم يقيم بحر.

(قوله: في الكل) أي كل الصلوات لظهور التواني في الأمور الدينية. قال في العناية: أحدث المتأخرون التثويب بين الأذان والإقامة على حسب ما تعارفوه في جميع الصلوات سوى المغرب مع إبقاء الأول يعني الأصل وهو تثويب الفجر وما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن. اهـ.

(قوله: للكل) أي كل أحد، وخصه أبو يوسف بمن يشتغل بمصالح العامة كالقاضي والمفتي والمدرس واختاره قاضي خان وغيره نهر.

(قوله: بما تعارفوه) كتنحنح، أو قامت قامت، أو الصلاة الصلاة، ولو أحدثوا إعلاما مخالفا لذلك جاز نهر عن المجتبى."

(باب الاذان،ج:1،ص:389،ط:سعید)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

تثویب ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے،البتہ فقہاء کرام نے عوام الناس کی سستی کو دیکھ کر اس کو جائز کہا ہے،لہذا اس دور میں اگر تثویب کی جائے تو اس پر بدعت کا اطلاق کرنا مناسب نہیں، البتہ اس کو عادت بنانا بھی مکروہ ہے۔

(باب الاذان والاقامۃ،ج:3،ص:53،ط:مکتبہ سید احمد شہید اکوڑہ خٹک)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101298

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں