بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرونا وائرس کے خاتمے کے لیے اذان دینے کا حکم


سوال

ہمارے شہر میں لوگ آج کل مسجدوں میں رات گئےا ذان دینا شروع ہو جاتے ہیں؛ چوں کہ آج کل کرونا وائرس پھیلا ہوا ہے تو اس کو دافع البلاء  کی صورت میں اذان دیتے ہیں۔  کیا عمل مسنون ہے یا کسی بزرگ کا قول ہے؟

جواب

وبا یا طاعون وغیرہ کے خاتمے کے لیے اذان دینا قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ہے، نیز فقہائے احناف سے بھی اس موقع پر اذان دینے کے بارے میں کوئی روایت منقول نہیں ہے، البتہ شوافع کے ہاں  مصائب، شدائد اور عمومی پریشانیوں کے بعض مواقع پر اذان دینے کی اجازت منقول ہے؛ اس لیے وبا کے خاتمے کے لیے اذان دینے کی گنجائش ہوگی، تاہم یہ اذان مساجد میں نہ دی جائے،  نیز اس انداز سے بھی نہ دی جائے کہ نماز کے لیے اذان ہونے کا اشتباہ ہو۔ حکم کے اعتبار سے یہ اذان مسنون یا مستحب نہیں ہے، بلکہ مباح ہے، بشرطے کہ اسے لازم یا سنت نہ سمجھا جائے۔

کفایت المفتی میں ہے :

’’سوال : دفع وباء کے لیے اذان دینا جائز ہے یا نہیں؟ تنہا یا گروہ کے ساتھ مسجد میں یا گھر میں؟

جواب : دفع وباء کے لیے اذانیں دینا تنہا یا جمع ہوکر بطور علاج اور عمل کے مباح ہے، سنت یا مستحب نہیں‘‘۔  (۳ / ۵۲، دار الاشاعت)

فتاوی محمودیہ میں ہے :

’’بلا کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت بلکہ مستحب ہے، اور بخار کے دفعیہ کے لیے اذان کہنا ثابت نہیں ہے۔ شرعاً دفع بلا کے لیے اذان اس طرح کہی جائے کہ اذان نماز کا اشتباہ نہ ہو‘‘۔ (۳ / ۲۹۸، دار الافتاء فاروقیہ )

البحرالرائق کے حاشیے میں ہے :

"(قوله : وخرج بالفرائض إلخ ) قال الرملي: أي الصلوات الخمس، فلايسن للمنذورة. ورأيت في كتب الشافعية: أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة، كما في أذان المولود، والمهموم والمفزوع، والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة، وعند مزدحم الجيش، وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر قياساً على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن لخبر صحيح فيه أقول : ولا بعد فيه عندنا". (3/10)

فتاوی شامی میں ہے :

" مطلب في المواضع التي يندب لها الأذان في غير الصلاة(قوله: لايسن لغيرها ) أي في الصلوات وإلا فيندب للمولود. وفي حاشية البحر للخير الرملي: رأيت في كتب الشافعية أنه قد يسن الأذان لغير الصلاة كما في أذن المولود والمهموم والمصروع والغضبان ومن ساء خلقه من إنسان أو بهيمة وعند مزدحم الجيش وعند الحريق، قيل: وعند إنزال الميت القبر؛ قياسًا على أول خروجه للدنيا، لكن رده ابن حجر في شرح العباب، وعند تغول الغيلان أي عند تمرد الجن؛ لخبر صحيح فيه، أقول: ولا بعد فيه عندنا ا هـ أي لأن ما صح فيه الخبر بلامعارض فهو مذهب للمجتهد وإن لم ينص عليه".(1/385) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108200798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں