بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان اور اقامت کے درمیان کون سی دعا مانگنی چاہیے؟


سوال

اذان اور اقامت کے درمیان کون سی دعا مانگنی چاہیے؟

جواب

واضح رہے کہ دعا مانگنے کے لیے شریعتِ مطہرہ کی رو سے کسی وقت کے بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے، البتہ بیت الخلاء میں، یا برہنہ حالت میں اللہ کا ذکر زبان سے منع ہے، لہٰذا ان مواقع کے علاوہ 24 گھنٹوں میں سے صبح و شام میں کسی بھی وقت دعا مانگی جاسکتی ہے، البتہ بعض اوقات کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ان اوقات میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی ہے، اس حدیث کی رو سے اگر اذان کے بعد مسنون دعا (جو مشہور ہے) اور درود شریف کے پڑھنے کے بعد اقامت تک اپنی کسی حاجت کے واسطے جو بھی دعا مانگی جائی، اس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس لیے اذان و اقامت کے درمیان دعا مانگنی چاہیے، البتہ اذان کے بعد مسنون دعا پڑھتے وقت ہاتھ نہیں اُٹھانے چاہییں، اس میں اَدب یہی ہے۔

مسنون دعائیں اور درود شریف پڑھنے کے بعد، جداگانہ مستقل دعا مانگ رہے ہوں تو ہاتھ بھی اٹھاسکتے ہیں۔ مسنون دعا کے علاوہ کسی بھی جائز مقصد کے لیے دعا کی جاسکتی ہے، احادیثِ مبارکہ میں بہت سی جامع دعائیں منقو ل ہیں، اور آپ ﷺ جامع دعائیں پسند فرمایا کرتے تھے، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک عافیت مانگنے سے بہتر کوئی دعا نہیں۔ان جامع دعاؤں میں سے جو دعا یاد ہو مانگ لے، نیز اپنی حاجت کو قبولیت کے پورے یقین کے ساتھ دل کی توجہ سے پیش کرے، حدیثِ پاک میں دعا کا ادب یہ سکھایا گیا ہے کہ ابتدا میں اللہ تعالیٰ کی حمد کرے، پھر رسول اللہ ﷺ پر درود بھیجے، پھر اپنی ذات سے دعا مانگنا شروع کرے، پھر اس کے بعد دوسروں کے لیے دعا کرے۔

سنن أبي داود (1/ 144):

باب ما جاء في الدعاء بين الأذان والإقامة

حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن زيد العمي، عن أبي إياس، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايرد الدعاء بين الأذان والإقامة».

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (3/ 327):

(عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايرد الدعاء بين  الأذان والإقامة) يحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لايرد بين أثناء الأذان من حين ابتدائه إلى حين انتهائه، وكذا الإقامة، ويحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لايرد بين الوقت الذي من ابتداء الأذان إلى انتهاء الإقامة. 

سنن النسائي (2/ 26):

 أخبرنا عمرو بن منصور قال: حدثنا علي بن عياش قال: حدثنا شعيب، عن محمد بن المنكدر، عن جابر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال حين يسمع النداء: اللهم رب هذه الدعوة التامة والصلاة القائمة. آت محمدا الوسيلة والفضيلة، وابعثه المقام المحمود الذي وعدته إلا حلت له شفاعتي يوم القيامة.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144109201853

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں