بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 جمادى الاخرى 1446ھ 04 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

آزاد کے الفاظ سے طلاق


سوال

میرے شوہر اور مجھ میں کسی بات پر ناراضگی ہوگئی،میں اپنے بھائی کے گھر چلی گئی تو میرے شوہر نے مجھے موبائل پر یہ الفاظ کہے کہ "میں نے تجھے آزاد کیا ہے ،تو میری طرف سے آزاد ہے"۔ یہ بھی کہا کہ ’’جاؤجس کے ساتھ رہنا ہے اسی کے ساتھ رہو‘‘،یہ الفاظ چار پانچ مرتبہ بولے ہیں۔

ایسی صورت میں ہمارے نکاح کی کیاحیثیت ہے ؟ نکاح ختم ہوگیا ہے یا برقرار ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر واقعۃ سائلہ  کے شوہر نے سائلہ کو   موبائل پر یہ الفاظ کہے کہ ’’میں نے تجھے آزاد کیا ہے ،تو میری طرف سے آزاد ہے ‘‘ اور یہ الفاظ  کہے کہ ’’جاؤجس کے ساتھ رہنا ہے اسی کے ساتھ رہو‘‘،تو ان الفاظ  میں سے پہلے جملہ ’’ میں نے تجھے آزاد کیا ہے ‘‘ سے سائلہ پر ایک طلاق بائن واقع ہوگئی ہے باقی جملوں  سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ،اب  نکاح ختم ہوگیاہے، سائلہ اپنی  عدت(مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ شرعاً نکاح کرسکتی ہے۔

البتہ اگر دونوں مرد اور عورت ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو  دوبارہ نکاح (چاہےعدت کے دوران یا عدت کے بعد)کرکے میاں بیوی  کی حیثیت  سےرہ سکتےہیں ، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار  ہوگا۔

بحرالرائق میں ہے:

"وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(باب الکنایات فی الطلاق، 3 /325، ط: دار الکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف، (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية...."

(باب صریح الطلاق، 3/ 252، ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال..."

(باب الکنایات، 3/ 308، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144601102458

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں