بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آزاد کرتا ہوں کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

میں باہر ملک میں کاروبار کے سلسلے میں رہتا ہوں، سسرال والوں نے کہا کہ اپنی اہلیہ کو بھی ساتھ لے جاؤ، میں نے کہا کہ میں نہیں لے جاسکتا تو انہوں نے کہا کہ پھر اس کو فارغ کر دو، میں نے غصے میں آ کر بولا کہ "اس کو آزاد کرتا ہوں آزاد کرتا ہوں آزاد کرتا ہوں" تین مرتبہ بولا  اس کو  ۔براہ  مہربانی راہ نمائی فرمائیں کہ طلاق ہوگئی یا نہیں؟ اگر ہوگئی تو کتنی؟

جواب

واضح رہے کہ  لفظِ "آزاد" اصل کےاعتبار سےتو کنایہ ہے، لیکن ہمارےعرف میں  طلاق کا صریح لفظ بن چکا ہے؛ لہذا عرفاً صریح ہونے کی وجہ سے طلاق کے واقع ہونےکےلئے نیت یا قرینہ کا محتاج نہیں ،باقی اس سے بائنہ ہونا الفاظ کا تقاضا ہے،اس لیے اس سےطلاق صریح بائن واقع ہو تی ہے۔

لہذاصورتِ  مسئولہ میں سائل نے   جب   غصے میں آکر بیوی کے بارے میں  تین مرتبہ یہ الفاظ بولے  کہ "اس کو آزاد کرتا ہوں آزاد کرتا ہوں آزاد کرتا ہوں"تو اس سے سائل کی بیوی  پر صرف ایک  طلاقِ بائن واقع ہوئی ہے  اور نکاح ختم ہوگیاہے۔ مطلقہ اپنی  عدت(مکمل تین ماہ واریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہو گی۔البتہ اگر دونوں(  سائل اورمطلقہ عورت)   باہمی رضامندی سے ایک ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو نئے مہر اور شرعی گواہان کے روبرو  دوبارہ نکاح (چاہےعدت کے دوران یا عدت کے بعد)کرکے میاں بیوی  کی حیثیت  سےرہ سکتےہیں ، اور آئندہ کے لیے شوہر کو دو طلاقوں کا اختیار  ہوگا،یعنی اگرمزیددوطلاقیں  دے گاتوپہلی طلاق سے مل کر مجموعی طورپر تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی،اوربیوی حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوجائے گی۔

وفي البحر الرائق:

"وفي فتح القدير وأعتقتك مثل أنت حرة، وفي البدائع كوني حرة أو اعتقي مثل أنت حرة ككوني طالقا مثل أنت طالق."

(باب الکنایات فی الطلاق،3/325،ط:دارالکتاب الاسلامی)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن الألفاظ المستعملة: الطلاق يلزمني، والحرام يلزمني، وعلي الطلاق، وعلي الحرام فيقع بلا نية للعرف، (قوله فيقع بلا نية للعرف) أي فيكون صريحا لا كناية، بدليل عدم اشتراط النية وإن كان الواقع في لفظ الحرام البائن لأن الصريح قد يقع به البائن كما مر، لكن في وقوع البائن به بحث سنذكره في باب الكنايات، وإنما كان ما ذكره صريحا لأنه صار فاشيا في العرف في استعماله في الطلاق لا يعرفون من صيغ الطلاق غيره ولا يحلف به إلا الرجال، وقد مر أن الصريح ما غلب في العرف استعماله في الطلاق بحيث لا يستعمل عرفا إلا فيه من أي لغة كانت، وهذا في عرف زماننا كذلك فوجب اعتباره صريحا كما أفتى المتأخرون في أنت علي حرام بأنه طلاق بائن للعرف بلا نية مع أن المنصوص عليه عند المتقدمين توقفه على النية...."

(باب صریح الطلاق،3/ 252،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله لا يلحق البائن البائن) المراد بالبائن الذي لا يلحق هو ما كان بلفظ الكناية لأنه هو الذي ليس ظاهرا في إنشاء الطلاق كذا في الفتح، وقيد بقوله الذي لا يلحق إشارة إلى أن البائن الموقع أولا أعم من كونه بلفظ الكناية أو بلفظ الصريح المفيد للبينونة كالطلاق على مال..."

(باب الکنایات،3/ 308،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101331

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں