بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ آزاد سے طلاق کا حکم


سوال

میں نے فتوی نمبر 144505101898 میں آپ جناب سے ایک مسئلہ سے متعلق سوال کیاتھا، آپ حضرات نے دوسرے جملہ سے ایک طلاقِ بائن واقع ہونے کا حکم بیان فرمایا، جب کہ   دوسرا جملہ (آزاد ہو ، جو دل ہے کرو) میرے اُسی جملے کی تصدیق کے لیے تھا، جومیں نے پہلے کہاتھا کہ(جو لڑکی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے وہ آزاد ہوتی ہے)(آزاد خیال والا آزاد) یہ دوسرا جملہ کہتے وقت بھی میرے ذہن میں  پہلے جملہ کاسیاق وسباق ہی  تھا۔

تیسرے جملہ سے متعلق آپ حضرات نے وضاحت لی تھی، وضاحت ملاحظہ ہو:

بیوی کی عادت ہے وہ اکثر باتوں میں کہہ دیتی ہے دوبارہ کہو،  اس بات کا میں نے بعد میں  بیوی سےپوچھا بھی کہ آپ کے ذہن میں اُس وقت کیا تھا، جس پر آپ نے کہا دوبارہ کہو ؟تو انہوں نے کہا کے میرے ذہن میں اُس وقت وہ ہی والا آزاد تھا ، جس کی بات چل رہی تھی ،یعنی آزاد خیال وغیرہ۔۔ ۔ تاہم بعد میں بیوی کے ذہن میں آیا کہ فلاں نے بیوی کو آزاد کہا تھا ،تو مفتی صاحب نے کہا تھا کہ نکاح دوبارہ کرنا ہوگا۔۔۔ لیکن سائل نے کبھی اس بارے میں پہلے نہیں سنا تھا ،چوں کہ ہمارے یہاں طلاق کا صرف ایک ہی لفظ استعمال کیا جاتا ہے ،جو کہ مشہور ہے۔(اللہ اس سے محفوظ رکھیں)

جواب

واضح رہےکہ لفظِ"آزاد " ہمارے عرف میں طلاق کے معنی میں استعمال ہوتاہے؛اس لیے طلاق کی نیت کیے بغیراس سے طلاق واقع ہوجاتی ہے،تاہم اگر  کلام میں کوئی واضح قرینہ موجود ہو، جو"لفظِ آزاد" کو طلاق کے معنی سے پھیرکر کسی اور معنی کی طرف لے جاتاہو، اور کہنے والے نے طلاق کی نیت بھی نہیں کی ہو،تواس سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔

صورتِ مسئولہ میں  سائل کے  پہلے جملہ"جو لڑکی گھر سے قدم باہر نکالتی ہے وہ آزاد ہوتی ہے"  میں آزاد  کے لفظ میں طلاق کے علاوہ کسی اور معنی کا احتمال موجود تھا، اور سائل نے طلاق کی نیت بھی نہیں کی تھی،اس بناء پر اس سے طلاق نہ ہونے کا حکم لکھ دیاگیاتھا،البتہ سائل کے اس دوسرے جملے "آزاد ہو، جودل ہے کرو" میں کوئی ایسا قرینہ  نہیں، جس کی بنیاد پر اس کو طلاق کے معنی سے پھیرکر کسی اور معنی پر محمول کیاجاسکتاہو، اس بناء پر اس جملہ سے طلاقِ بائن کے وقوع کاحکم لکھ دیاگیا۔

البتہ سائل نے  تیسرا جملہ کیاکہا ہے، وہ سائل نے اب تک واضح کرکے نہیں لکھاہے، اس بناء پر اس کاحکم نہیں بتایا جاسکتا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لأن ‌ما ‌ذكروه في تعريف الكناية ليس على إطلاقه، بل هو مقيد بلفظ يصح خطابها به ويصلح لإنشاء الطلاق الذي أضمره أو للإخبار بأنه أوقعه كأنت حرام، إذ يحتمل لأني طلقتك أو حرام الصحبة وكذا بقية الألفاظ."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات،٢٩٦/٣،ط:سعيد)

وفیہ ایضاً:

"(قوله ويقع الطلاق إلخ) يعني إذا قال لامرأته: ‌أعتقتك تطلق إذا نوى أو دل عليه الحال."

(كتاب الطلاق،باب الكنايات،٢٤٦/٣،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506102270

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں