بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عذابِ قبرکب تک ہوگا؟


سوال

 اگر کسی شخص پر عذابِ قبر واجب ہوجائے تو اسے عذاب کب تک دیا جائے گا؟ کیوں کہ اگر وہ اپنے گناہ کا عذاب قبر میں بھی وصول  کرلے گا تو پھر روزِ قیامت بھی اسے جہنم میں داخل کیا جائے گا یا پھر قبر میں مستقل عذاب سہنے  کے بعد اُسے معاف کردیا جائے گا؟

جواب

واضح رہے کہ انسان دنیا میں جو گناہ کرتے ہیں  ان گناہوں  کی سزا یا  عذاب چار مراحل میں دیا جاتاہے:

1۔دنیا میں ۔2۔قبر میں ۔3۔حشر میں ۔4۔جہنم میں۔

پہلی قسم (دنیاوی عذاب) :

بعض مسلمانوں کو ان کے گناہوں کی سزا دنیا میں بیماری اور مختلف قسم کی تکالیف کے ذریعے دی جاتی ہے،اگر اس سے ان کا گناہ معاف ہوگیا تو قبر،میدان حشر اور جہنم میں عذاب نہیں دیا جائے گا۔

تنبیہ الغافلین میں ہے:

"عن علي بن أبي طالب رضي الله تعالى عنه ،أنه قال: ألا أخبركم بأرجى آية في كتاب الله تعالى؟ قالوا: بلى، فقرأ عليهم:{وما أصابكم من مصيبة فبما كسبت أيديكم ويعفو عن كثير} [الشورى: 30] ، فالمصائب في الدنيا بكسب الأوزار، فإذا عاقبه الله في الدنيا، فالله أكرم من أن يعذبه ثانيا.وإذا عفا عنه في الدنيا فهو أكرم من أن يعذبه يوم القيامة.

339 - وروت عائشة رضي الله تعالى عنها، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم ، أنه قال: «ما يصيب المؤمن مصيبة حتى شوكة فما فوقها إلا حط الله عنه بها خطيئة."

(باب الصبر علي البلاء والشدة ص:255،ط:دار ابن كثير)

دوسری قسم (قبرمیں عذاب):

اگر دنیا میں بیماری اور تکالیف  پہنچنے کی وجہ سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو قبر میں عذاب دیا جائے گا،اگر قبر میں سزا کی وجہ سے ان کا تمام گناہ معاف  ہوگئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب نہیں دیا جائےگا۔

کتاب الروح لابن قیم میں ہے:

"النوع الثاني: إلى مدة ثم ينقطع وهو عذاب بعض العصاة الذين خفت جرائمهم فيعذب بحسب جرمه ثم يخفف عنه كما يعذب في النار مدة ثم يزول عنه العذاب.

 وقد ينقطع عنه العذاب بدعاء أو صدقة أو استغفار أو ثواب حج أو قراءة تصل إليه من بعض أقاربه أو غيرهم."

(المسألة الرابعة عشر وهي قوله: عذاب القبر دائم أو منقطع، ص:89، ط:دارالكتب العلمية.بيروت)

تیسری قسم( حشر میں عذاب):

اور اگر قبر کے عذاب سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو ان کو میدان حشر میں عذاب دیا جائےگا۔

بخاری شریف میں ہے:

"1402 - حدثنا الحكم بن نافع، أخبرنا شعيب، حدثنا أبو الزناد، أن عبد الرحمن بن هرمز الأعرج حدثه: أنه سمع أبا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال النبي صلى الله عليه وسلم: «تأتي الإبل على صاحبها على خير ما كانت، إذا هو لم يعط فيها حقها، تطؤه بأخفافها، وتأتي الغنم على صاحبها على خير ما كانت إذا لم يعط فيها حقها، تطؤه بأظلافها، وتنطحه بقرونها»، وقال: «ومن حقها أن تحلب على الماء» قال: " ولا يأتي أحدكم يوم القيامة بشاة يحملها على رقبته لها يعار، فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك شيئا، قد بلغت، ولا يأتي ببعير يحمله على رقبته له رغاء فيقول: يا محمد، فأقول: لا أملك لك من الله شيئا، قد بلغت. "

(كتاب الزكاة،باب اثم مانع الزكاة ج:2،ص:105،106،ط:دار طوق النجاة)

چوتھی قسم (جہنم میں عذاب):

اور اگر میدان حشر میں عذاب دینے سے تمام گناہ معاف  ہوگئے تو جہنم میں نہیں ڈالا جائےگا،اور اگر میدان حشر میں  عذاب دینے سے تمام گناہ معاف نہیں  ہوئے تو بقیہ گناہوں کی سزا کے لیے جہنم میں ڈالا جائےگا،یہ عام قانون ہے ،ہاں اگر اللہ تعالیٰ کسی ایمان دار کو اپنے فضل وکرم سےمعاف کرنا چاہے تو معاف کرسکتاہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وتواترت الاحادیث عن رسول اللّٰہ ﷺ انه یخرج من النّار من کان فی قلبه ادنیٰ مثقال ذرّۃ من ایمان الخ۔"

(تفسیر ابن کثیر:ج:1 ص؛537 تحت قوله تعالي: ومن یقتل مؤمنًا متعمداً) 

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144307102345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں