بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

دارالافتاء

 

عذاب قبر کے منکر کا حکم


سوال

1:عذاب قبر کے منکر کاحکم؟

2:"محمد الرسول الله" کے بغیر کلمہ پڑھنے والے کاحکم؟

3:تراویح کا حکم سنت ہے کہ نفل؟

4:رمضان کی فضیلت ؟

جواب

(1)قرآن وسنت اوراجماع امت سے عذاب قبراس طور پرثابت ہے کہ بلاتاَویل اس کے منکر کوفقہاء کرام نے کافرکہاہے۔

(2)کلمہ توحید”محمدالرسول اللہ”کے بغیرادھوراہے،اس کے بغیرایمان مکمل نہیں ہوتا،البتہ محض ذکرکے طورپرصرف”لااله الا الله‘‘پڑھنادرست ہے۔

(3)تراویح  کی نماز مردوں اور عورتوں دونوں کے لیےسنت مؤکدہ ہے، بلا عذر اس کو چھوڑنے والا نافرمان اور گناہ گار ہے۔خلفاءِ راشدین،صحابہ کرام،تابعین،تبع تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین سے پابندی سے تراویح پڑھنا ثابت ہے۔

(4)ماہ رمضان وہ برکتوں والا مہینہ ہےجس میں قرآن مقدس کا نزول ہوا، رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا عشرہ مغفرت اور تیسرہ عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ہے،اسی طرح اس مہینہ کی فضیلتیں بہت سی احادیث  میں مذکور ہیں۔

(1) عذاب قبر کے منکر کے بارے میں

(الف)ارشاد ربانی ہے:

"اَلنَّارُیُعْرَضُوْنَ عَلَیْها غُدُوًّا وَّعَشِیًّا وَّیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوْا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَاب."

[المؤمن:46]

ترجمہ: ’’ وہ لوگ  (برزخ میں) صبح اور  شام آگ کے سامنے  لائے جاتے  ہیں، اور جس  روز  قیامت قائم ہوگی (حکم ہوگا) فرعون والوں کو (مع فرعون کے) نہایت سخت آگ میں داخل کرو۔‘‘(بیان القرآن)

اس آیت میں فرعونیوں کا عالمِ برزخ میں عذاب میں مبتلا ہونا صراحتًا مذکور ہے، اسی طرح تمام کفار و مشرکین اور بعض گناہ گار مؤمنین کو برزخ میں عذاب دیا جاتاہے، جیساکہ بہت سی صحیح احادیث میں مذکور ہے.

(ب)صحیح بخاری و صحیح مسلم میں ہے :

"عن عائشة رضي الله عنها أنّ یهودیة دخلت علیها، فذکرت عذاب القبر، فقالت لها: أعاذك اللہ من عذاب القبر، فسالت عائشة رسول الله ﷺ عن عذاب القبر، فقال: نعم، عذاب القبر حقّ، قالت عائشة: فما رأیت رسول الله ﷺ بعد صلّی صلاۃً إلّا تعوذ بالله من عذاب القبر."

(باب التعوذ من عذاب القبر في الكسوف، ج:2، ص:36، ط:دار طوق النجاة)

ترجمہ:" حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی، اور اس نے عذابِ قبر کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دعا دی: "اللہ تعالیٰ آپ کو عذابِ قبر سے بچائے"، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ ﷺ سے اس بابت سوال کیا (کہ کیا واقعی عذابِ قبر ہوتاہے؟) تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جی ہاں! عذابِ قبر حق ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے رسول اللہ ﷺ  کو  ہمیشہ دیکھا کہ ہر نماز میں عذابِ قبر سے پناہ مانگتے تھے."

(ج)فتاوی ہندیہ میں ہے :

"يكفر بإنكار رؤية الله تعالى عز وجل بعد دخول الجنة وبإنكار عذاب القبر وبإنكار حشر بني آدم لا غيرهم ولا بقوله أن المثاب والمعاقب الروح فقط كذا في البحر الرائق."

(كتاب السير،  الباب التاسع في أحكام المرتدين، مطلب في موجبات الكفر أنواع منها ما يتعلق بالإيمان والإسلام، ج:2، ص:274، ط : رشيديه)

(2)کلمہ کے بارے میں ہے

(الف)صحیح بخاری میں ہے:

"عن ‌ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: بني الإسلام على خمس: ‌شهادة أن ‌لا ‌إله ‌إلا ‌الله وأن محمدا رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، والحج، وصوم رمضان".

(‌‌‌‌كتاب الإيمان، باب: دعاؤكم إيمانكم، 1/ 11 ط : المطبعة الكبرى الأميرية)

(ب)امداد الفتاویٰ میں ہے:

”لااله الاالله “  کے ساتھ”محمد رسول اللہ” ملا کر پڑھنا  ضروری ہے، بہت سی احادیث میں جہاں ارکانِ اسلام کا ذکر آیا ہے ان دو جملوں کی شہادت کو ایک رکن قرار دیا گیا ہے، یہ صاف دلیل ہے جمع کی اعتقاد میں بھی اور اقرار میں بھی اور یہ امر بہت ظاہر ہے."

(کتاب العقائد والکلام، ج: 4،  ص: 407،  ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)

(3)تراویح کے بارے میں ہے

(الف)فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: والجماعة فيها سنة على الكفاية إلخ) أفاد أن أصل التراويح سنة عين، فلو تركها واحد كره، بخلاف صلاتها بالجماعة فإنها سنة كفاية، فلو تركها الكل أساءوا."

( باب الوتر والنوافل، ج:2، ص:45،  ط: سعید)

(4)روزے کے فضیلت کے بارے میں

(الف)صحیح بخاری میں ہے:

" عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ."

( کتاب الصوم، باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا، ج:2، ص:672، ط: المطبعة الكبرى الأميرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100713

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں