بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اذان میں ’’اشہد ان محمدا رسول اللہ‘‘ کا اضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی چاہت پر ہوا ہے؟


سوال

آج کل ایک کلپ وائرل ہواہے کہ اذان میں ’’أشهد أن محمدا رسول الله‘‘ کااضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خواہش پرہواہے، کیایہ بات درست ہے؟

جواب

جماعت کی نماز کے لیے اذان کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کرکے تشریف لے گئے، تو مدینہ میں مسلمانوں کو ایک یہ مسئلہ در پیش آیا کہ جب نماز کا وقت ہو، تو مسلمانوں کو کس طرح بیک وقت نماز کے لیے جمع کیا جائے؟ چناں چہ اس کا حل پیش کرنے کے لیے ایک دن اس پر  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رو برو صحابہ کرام رضوا اللہ عنہم اجمعین کے مابین بات چیت ہوئی، بعض صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے یہ مشورہ دیا کہ نصاریٰ کی طرح ناقوس بجایا جائے، بعض نے یہودیوں کی طرح بوق بجانے جبکہ بعض نے آگ جلانے کا مشورہ دیا، لیکن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مشوروں میں سے کوئی مشورہ پسند نہیں آیا؛ کیوں کہ اس میں دیگر غیر مسلم اقوام کے ساتھ مشابہت لازم آ رہی تھی، لیکن قبل اس سے کہ اس سے متعلق کوئی آسمانی ہدایت نازل ہو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ناقوس بجانے کا حکم صادر فرمایا؛ کیوں کہ وہ عیسائیوں کا طریقہ تھا، اور حقیقی عیسائی یہودیوں کی نسبت مسلمانوں کے زیادہ قریب ہیں، جب صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین منتشر ہو کر اپنے گھروں میں تشریف لے  گئے، تو حضرت عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ نے رات کو خواب دیکھا کہ ایک اللہ کا بندہ  ہے، جس کے ہاتھ میں ناقوس ہے،فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ  ناقوس بیچنا چاہتے ہیں؟ تو انہوں نے جواب میں کہا کہ آپ اس کا کیا کریں گے؟ میں نے کہا کہ ہم اس کے ذریعے لوگوں کو نماز کے لیے جمع کریں گے، تو انہوں نے کہا کہ کیا میں اس سے بہتر طریقہ آپ کو نہ بتاؤں؟  میں نے کہا کہ کیوں نہیں!  تو اس اللہ کے بندے نے کہا کہ آپ یہ کہا کریں:

"الله أكبر الله أكبر، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حى على الصلاة، حى على الصلاة، حى على الفلاح، حى على الفلاح، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله."

 جب صبح ہوئی تو میں  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں جا کر یہ خواب سنایا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’بے شک یہ برحق خواب ہے انشاء اللہ، بلال (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ اٹھ جائیں، اور ان کو وہ الفاظ بتائیں جو آپ نے خواب میں دیکھے ہیں؛ تاکہ وہ ان کے ذریعے اذان دے؛ کیوں کہ وہ آپ سے زیادہ اونچی آواز والے ہیں‘‘، پھر میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھا، اور ان کو وہ کلمات بتانے شروع کیے، اور وہ اذان دینے لگے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اذان سنی جبکہ وہ گھر میں تھے، تو چادر گھسیٹتے ہوئے گھر سے نکلے، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرنے لگے کہ :یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، میں نے بھی خواب میں یہی کلمات دیکھے ہیں جو حضرت عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ نے دیکھے ہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’لله الحمد (تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں)‘‘، اور ایک روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کہ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ آپ سے سبقت لے گئے‘‘؛ (کیوں کہ انہوں نے پہلے اپنے خواب کی اطلاع دی تھی)۔

یہیں سے اذان مشروع ہوئی، جس کے کلمات میں  ’’أشهد أن محمدا رسول الله‘‘   بھی ہے، اور اس وقت سے اب تک ’’أشهد أن محمدا رسول الله‘‘  اذان کا جزء رہا ہے، اس سے پہلے اذان سے متعلق صحابۂ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو علم نہیں تھا کہ اس پیش آمدہ مسئلہ کا اللہ کی طرف سے کیا حل نازل ہوگا؟  کیا اس کی کیفیت ہوگی؟ نہ ہی کسی صحابی (بشمول حضرت عمر رضی اللہ اعنہ) نے ان کلمات سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا تھا، اور نہ ہی اس سے متعلق کوئی تمنا ظاہر فرمائی تھی۔

اس لیے یہ کہنا کہ اذان میں ’’أشهد أن محمدا رسول الله‘‘   کا اضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی چاہت پر ہوا ہے درست نہیں ہے، کتب احادیث میں کہیں اس کا ثبوت نہیں ہے۔

ہاں البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی خواب میں وہی کلمات دیکھائے گئے تھے جو حضرت عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ کو دیکھائے گئے تھے۔

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، قال: حدثني أبي عبد الله بن زيد، قال: لما أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناقوس يعمل ليضرب به للناس لجمع الصلاة طاف بي وأنا نائم رجل يحمل ناقوسا في يده، فقلت: يا عبد الله أتبيع الناقوس؟ قال: وما تصنع به؟ فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: أفلا أدلك على ما هو خير من ذلك؟ فقلت له: بلى، قال: فقال: تقول: الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الصلاة، حي على الفلاح، حي على الفلاح، الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله، قال: ثم استأخر عني غير بعيد، ثم، قال: وتقول: إذا أقمت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، أشهد أن لا إله إلا الله، أشهد أن محمدا رسول الله، حي على الصلاة، حي على الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، الله أكبر الله أكبر، لا إله إلا الله، فلما أصبحت، أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبرته، بما رأيت فقال: «إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فألق عليه ما رأيت، فليؤذن به، فإنه أندى صوتا منك» فقمت مع بلال، فجعلت ألقيه عليه، ويؤذن به، قال: فسمع ذلك عمر بن الخطاب، وهو في بيته فخرج يجر رداءه، ويقول: والذي بعثك بالحق يا رسول الله، لقد رأيت مثل ما رأى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فلله الحمد»."

(كتاب الصلاة، باب كيف الأذان، ج:1، ص:135، رقم:499، ط:المكتبة العصرية)

بذل المجہود میں ہے:

"فإن قلت: كيف يصح أن يقال: أمر رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بالناقوس يعمل؟ وقد ثبت أنه كرهه، وقال: "هو من أمر النصارى".

قلت: ذكر لرسول الله - صلى الله عليه وسلم - شبور اليهود وناقوس النصارى فكرههما من أجلهما، ثم بعد ذلك لما كان النصارى أقرب إلى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من اليهود باعتبار المودة والطواعية لعله اختار  أمرهم وأمر بالناقوس أن يعمل."

(كتاب الصلاة، باب كيف الأذان، ج:3، ص:244، ط:مركز الشيخ ابي الحسن الندوي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144404101309

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں