بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان ہیڈفون میں سنتے سنتے اذان دینا جائز ہے؟


سوال

ہیڈفون میں سنتے سنتے اذان دینا جائز ہے؟

جواب

ہیڈ فون سے سنتے سنتے اذان دینا  مناسب نہیں ہے،کیونکہ اذان شعائر اسلام میں سے ہے حتی الامکان  ا س کا ادب واحترام کرنا لازمی ہے،اور وہ امور جو معاشرہ میں اچھے نہیں سمجھے جاتے وہ بے ادبی شمار ہوتےہیں  لہذا اس سے احتراز کرنا ہی بہتر ہے ۔

قرآن مجید میں ہے :

﴿ ذَٰلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فإنھامِن تَقْوَى الْقُلُوبِ﴾(سورة الحج 32)

"ترجمہ :یہ بات بھی ہوچکی اور قربانی کے جانور کے متعلق اور سن لو کہ جو شخص دین خداوندی کے ان (مذکورہ ) یادگاروں کا پورا لحاظ رکھے گا تو ان کا یہ لحاظ رکھنا خدا تعالیٰ سے دل کے ساتھ ڈرنے سے ہوتا ہے ۔(از بیان القرآن )"

سنن ابی داؤد میں ہے:

"عن محمد بن عبد الله بن زيد بن عبد ربه، قال: حدثني أبي عبد الله بن زيد، قال: لما أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم.............. قال: وما تصنع به؟ فقلت: ندعو به إلى الصلاة، قال: أفلا أدلك على ما هو خير من ذلك؟ .............. فقال: «إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال فألق عليه ما رأيت، فليؤذن به، فإنه أندى صوتا منك» فقمت مع بلال، فجعلت ألقيه عليه، ويؤذن به، قال: فسمع ذلك عمر بن الخطاب، وهو في بيته فخرج يجر رداءه، ويقول: والذي بعثك بالحق يا رسول الله، لقد رأيت مثل ما رأى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فلله الحمد»."

(كتاب الصلاة، باب كيف الأذان، ج:1، ص:135، ط:المكتبة العصرية)

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

وعن عبد الله بن زيد ابن عبد ربه - رضي الله عنه - قال......... أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأخبرته بما رأيت. فقال: (إنها لرؤيا حق إن شاء الله، فقم مع بلال، فألق عليه ما رأيت فليؤذن به، فإنه أندى صوتا منك) . فقمت مع بلال، فجعلت أسمعه عليه ويؤذن به........"

(کتاب الصلاۃ باب الاذان ج :،2، ص:533، ط:دار الفکر)

عمدۃ القاری شرح البخاری میں ہے :

"وفي (المنتهى) لأبي المعالي: استأدب الرجل بمعنى تأدب، والجمع أدباء، وعن أبي زيد: الأدب إسم يقع على كل رياضة محمودة يتخرج بها الإنسان في فضيلة من الفضائل، وقيل: الأدب استعمال ما يحمد قولا وفعلا، وقيل: الأخذ بمكارم الأخلاق، وقيل: الوقوف مع المستحسنات، وقيل: هو تعظيم من فوقك والرفق بمن دونك فافهم."

(كتاب الأدب، ج: 22، ص:81 ط: دار الفکر)

بذل المجہود میں ہے: 

"الأدب:هو الطريقة الحسنة ‌في ‌المعاشرة وغيرها."

(أول كتاب ‌الأدب، ج:13، ص:205، ط: بیروت)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"‌‌القاعدة السادسة: العادة محكمة

وأصلها قوله عليه الصلاة والسلام {ما رآه المسلمون حسنا فهو عند الله حسن} قال العلائي: لم أجده مرفوعا في شيء من كتب الحديث أصلا، ولا بسند ضعيف بعد طول البحث، وكثرة الكشف والسؤال، وإنما هو من قول عبد الله بن مسعود رضي الله تعالى عنه مرفوعا عليه أخرجه أحمد في مسنده...واعلم أن اعتبار العادة والعرف يرجع إليه في الفقه في مسائل كثيرة حتى جعلوا ذلك أصلا."

(الفن الأول، القاعدۃ السادسة، ص: 79، ط: دار الكتب العلمية)

شامی میں ہے:

"أن المقصود الأصلي من الأذان في الشرع الإعلام بدخول أوقات الصلاة ثمصار من شعار الإسلامفي كل بلدة أو ناحية من البلاد الواسعة على ما مر، فمن حيث الإعلام بدخول الوقت وقبول قوله لا بد من الإسلام والعقل والبلوغ والعدالة."

(كتاب الصلاة، باب الأذان،ج:1، ص:394، ط: سعيد)

خطبات حکیم الامت میں ہے:

"ادب کا مدار عرف پر ہے، فقہاء نے اس کو خوب سمجھا ہے لا تقل لھما اف کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ حقیقت میں اس نہی کا ایذاء والدین سے منع کرنا ہے ، جہاں تافیف موجب ایذاء ہو وہاں حرام ہے اور اگر کسی وقت عرف بدل جائے اور تافیف موجب ایذاء نہ ہو تو حرام نہیں ہے۔"

(خطبات  حکیم الامت، ج:9،ص:302،ط،ادارہ تالیفات اشرفیہ)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102281

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں