جمعہ کی اذان سے پہلےا سٹال لگانا کیسا ہے ؟
جمعہ کی پہلی اذان سے پہلے اور نماز کے بعد خرید وفروخت کا اسٹال لگانے کی اجازت ہے، لیکن اذان ہوتے ہی جمعہ کی نماز کے لیے حاضر ہونا چاہیے، البتہ پہلی اذان کےبعد خرید و فروخت کرنا جائز نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
"ياأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا نُودِيَ لِلصَّلاةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيراً لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ".[الآية:9/10]
ترجمہ:"اے ایمان والو جب جمعہ کے روز نماز (جمعہ ) کے لئے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد (یعنی نماز وخطبہ ) کی طرف (فوراً) چل پڑا کرو اور خرید و فروخت (اور) اسیطرح دوسرے مشاغل جو چلنے سے مانع ہوں ) چھوڑ دیا کرو ، یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو (کیونکہ اس کا نفع باقی ہے اور بیع وغیرہ کا فانی ) ۔پھر جب نماز (جمعہ) پوری ہوچکے تو (اس وقت تم کو اجازت ہے کہ ) تم زمین پر چلو پھرو اور خدا کی روزی تلاش کرو . اور (اس میں بھی ) اللہ کو بکثرت یاد کرتے رہو تاکہ تم کو فلاح ہو "۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(ووجب سعي إليها وترك البيع) ولو مع السعي، في المسجد أعظم وزرا (بالأذان الأول) في الأصح وإن لم يكن في زمن الرسول بل في زمن عثمان. وأفاد في البحر صحة إطلاق الحرمة على المكروه تحريما".
"(قوله: وفي المسجد) أو على بابه بحر".
(كتاب الصلاة، باب الجمعة، ج:2، ص:161، ط: سعيد)
عمدۃ القاری میں ہے:
"ثم البيع إذا وقع فعند أبي حنيفة وأبي يوسف ومحمد وزفر والشافعي: يجوز البيع مع الكراهة، وهو قول الجمهور".
(كتاب مواقيت الصلاة، باب المشي إلى الجمعة وقول الله جل ذكره فاسعوا إلى ذكر الله ومن قال السعي العمل والذهاب لقوله تعالى: {وسعى لها سعيها}، ج:6، ص:204، ط: دار إحياء التراث العربي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602101949
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن