بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

لفظ آزاد کے منفی قرینہ ہو تو طلاق واقع نہ ہوگی


سوال

میری  بیوی والدہ کے گھر گئی ہوئی تھی،اور میں کام ختم کرکے گھر آیا ،بیوی چو ں کہ والدہ کے گھر گئی ہوئی تھی،اور مجھے بتایا بھی نہیں تھا،جب وہ واپس آئی تو میں نے پوچھا کدھر گئی تھی،تو اس نے جواب دیا کہ امی کے گھر گئی تھی ،میں نے کہا دیکھو  میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں ،تمہیں آنے جانے کے لیے  کوئی روک ٹوک نہیں،نہ ہی تمہارے کردار پر کوئی شک ہے،بلکہ میں کسی بھی انسان کے سامنے تمہارے کردار کی گواہی دے سکتا ہوں،بس اتنی سی بات ہے جدھر بھی جاؤ مجھے بتادیا کرو،اس پر میری بیوی نے جواب دیا کہ میں اکثر بتادیتی ہوں،اب ہر بار ضروری نہیں کہ میں گھر سے باہر نکلوں تو بتا کہ نکلوں،میں اتنی بھی تمہاری پابند نہیں ہوں،اس پر میں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے،تم آ زاد ہو،آج کے بعد میں نہیں پوچھوں گا،جدھر مرضی جاؤ بتاؤ یا نہ بتاؤ،اور ساتھ ہی یہ کہا کے،آزاد کا مطلب پتا ہےنہ،اس کا مطلب یہ ہے کہااب بھی نہیں پوچھوں گا،اور یہ آزاد کا مطلب بیوی  سے پوچھا بھی اسی لیے تھا کہ کہیں اس کا مطلب وہ طلاق نہ سمجھ لے،اور میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتاہوں،اور حلفا تحریر کرتا ہوں نہ تو لفظ آزاد سے مراد طلاق تھا،اور نہ ہی میں نے یہ الفاظ طلاق کی نیت سے کہے ہیں،اور اس ساری بات کے درمیان میں ہوش وہواس میں تھا،اور میں شدید غصہ یا غضب کی حالت میں نہیں تھا،سوال یہ ہے کہ اس سے واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ہماری طلاق واقع ہوگئی ہے،تم آزاد ہو جدھر مرضی جاؤ ،جس کے ساتھ مرضی جاؤ،تمہیں آزاد ہونے کا مطلب پتہ ہے نہ ، تمہیں سمجھ آرہی ہے نہ؟

جب کہ میرا مطلب  آزاد سے جدھر مرضی جاؤ،جس کے ساتھ مرضی جاؤہر گز طلاق نہیں تھا،اور نہ ہی میری نیت تھی،آزاد سے  میرا مطلب اور نیت یہ تھی کہ میں نہیں پوچھوں گا،جدھر مرضی جاؤ سے مراد امی کے گھر جاؤ،یا میری بہن کے گھر جاؤ،آزاد کا مطلب اس وجہ سے پوچھا کہ اس کی زبان انگلش ہے،اور لفظ آزاد اردو کا لفظ ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ میں سائل کی بیوی نےجب کہاکہ "اتنی بھی تمہاری پابندنہیں ہوں "اس کےبعدسائل نےکہاکہ "ٹھیک ہے،تم آ زاد ہو،آج کے بعد میں نہیں پوچھوں گا،جدھر مرضی جاؤ بتاؤ یا نہ بتاؤ"اس سےطلاق واقع نہیں ہوئی،کیوں کہ سائل کامقصداس جملہ سےیہ تھاکہ آنےجانےمیں آزاد ہو،میں تم سےنہیں پوچھاکروں گا۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"لايقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال، كذا في الجوهرة النيرة ... لايقع بها الطلاق إلا بالنية أو بدلالة حال، كذا في الجوهرة النيرة.

ثم الكنايات ثلاثة أقسام

(ما يصلح جوابا لا غير) أمرك بيدك، اختاري، اعتدي (وما يصلح جوابا وردا لا غير) اخرجي اذهبي اعزبي قومي تقنعي استتري تخمري (وما يصلح جوابا وشتما) خلية برية بتة بتلة بائن حرام .... والأحوال ثلاثة (حالة) الرضا (وحالة) مذاكرة الطلاق بأن تسأل هي طلاقها أو غيرها يسأل طلاقها (وحالة) الغضب ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق في الألفاظ كلها إلا بالنية."

(كتاب الطلاق،الباب الثاني في إيقاع الطلاق،الفصل الخامس في الكنايات في الطلاق،ج:1ص:374،ط:دارالفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144309100602

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں