۱۔لفظِ آ زاد آ ج کل ہمارے عرف میں طلاق صریح کے لیے متعارف ہے یا طلاق بائن کےلیے؟
۲۔اگر یہ لفظ طلاق ِ صریح کےلیے متعارف ہے تو اس سے طلاقِ صریح بائن واقع ہوگی یا صریح رجعی ؟
۳۔کوئی لفظ کسی قوم کے عرف میں یا کسی خطہ ارض پر کسی خاص معنی میں متعارف ہو تو کیا وہ کسی دوسری قوم یا جگہ کے رہنے والوں کے لیے بھی حجت ودلیل بن سکتاہے؟
1۔لفظ ِ آزاد ہمارے عرف میں صریح بائن کے لیے متعارف ہے۔
2۔لفظ ِ آزاد اگر چہ ہمارے عرف میں طلاق کے لیے صریح ہے لیکن چونکہ یہ لفظ اصل میں کنائی ہے، لہذا اس سے طلاق بائن ہی واقع ہوگی۔
3۔اگر کوئی لفظ کسی قوم کے عرف میں کسی خاص معنی کے ليے متعارف ہوتو دوسری اقوام كے لیے حجت نہیں ہوگا۔
البحر الرائق میں ہے:
والأوجه عندي أن يقع بائنا كما في فتح القدير، وفي المعراج، والأصل الذي عليه الفتوى في الطلاق بالفارسية أنه إن كان فيه لفظ لا يستعمل إلا في الطلاق فذلك اللفظ صريح يقع بلا نية إذا أضيف إلى المرأة مثل زن رها كردم في عرف أهل خراسان، والعراق بهيم لأن الصريح لا يختلف باختلاف اللغات وما كان بالفارسية يستعمل في الطلاق وغيره فهو من كنايات الفارسية فحكمه حكم كنايات العربية في جميع الأحكام
البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (3/ 323)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
أنت حرة۔۔۔۔۔۔يقع الطلاق وإن قال لم أنو الطلاق لا يصدق قضاء
الفتاوى الهندية (1/ 375)
احسن الفتاوی میں ہے:
(3) میں نے آزاد کردیا
تیسرا جملہ صریح بائن ہے ،لہذا اس سے طلاق کی نیت نہ ہو توصرف تیسرے جملہ سے ایک طلاق بائن ہوگی۔
احسن الفتاوی 5/202
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144304100288
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن