بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایامِ طہر میں نظر آنے والا خون کون سا ہے؟


سوال

اگر پندرہ دن سے قبل خون جاری ہو تو وہ استحاضہ ہے، سوال یہ ہے کہ اگر استحاضہ کے اندر ہی پندرہ دن طہر کے پورے ہو گئے لیکن خون ابھی بھی جاری ہے، تو وہ حیض کا ہوگا یا استحاضہ کا؟

جواب

اگر کسی عورت کو دس دن سے زائد خون نطر آئے ،تو عادت کے ایام سے زائد  استحاضہ ہو گا ،اس کے بعد  پھر ایام ِ عادت میں نظر آنے والا  خون حیض ہو گا ۔

یہ آپ کے سوال کا اصولی جواب ہے ،اگر  کسی متعین صورت  کے بارے معلومات درکار ہیں ،تو درجِ ذیل امور کی وضاحت کے ساتھ استفتاء دوبارہ ارسال فرمائیں :

1۔مذکورہ خاتون کے حیض کے ایام کی عادت کیا ہے ؟

2۔کتنے دن بعد خون رکا ؟

3۔اگلا خون کب رکا ؟

اسی ترتیب پر پچھلے ایک دو ماہ کو بیان کر دیا جائے ۔

فتاویٰ شامی میں ہے :

"(وأقل الطهر) بين الحيضتين أو النفاس والحيض (خمسة عشر يومًا) ولياليها إجماعًا (ولا حد لأكثره)".

(كتاب الطهارات ،باب الحيض ،ج:1 ،ص:285 ،ط:سعيد)

وفيه أيضًا:

"ثم قال في الفصل الرابع في الإستمرار: إذا وقع في المبتدأة فحيضها من أول الاستمرار عشرة وطهرها عشرون، ثم ذلك دأبها ونفاسها أربعون ثم عشرون طهرها إذ لا يتوالى نفاس وحيض، ثم عشرة حيضها ثم ذلك دأبها، وإن وقع في المعتادة فطهرها وحيضها ما اعتادت في جميع الأحكام إن كان طهرها أقل من ستة أشهر، وإلا فترد إلى ستة أشهر إلا ساعة وحيضها بحاله"

(كتاب الطهارات ،باب الحيض ،ج:1 ،ص:286 ،ط:سعيد)

البحرالرائق میں ہے:

"قال الأزهري: الإستحاضة سيلان الدم في غير أوقاته المعتادة". 

(كتاب الطهارة، باب الحيض،1 / 220، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

"(ولو زاد الدم على أكثر الحيض والنفاس فما زاد على عادتها استحاضة)؛ لأن ما رأته في أيامها حيض بيقين وما زاد على العشرة استحاضة بيقين وما بين ذلك متردد بين أن يلحق بما قبله فيكون حيضًا فلاتصلي وبين أن يلحق بما بعده فيكون استحاضةً فتصلي فلاتترك الصلاة بالشك فيلزمها قضاء ما تركت من الصلاة".

(كتاب الطهارة، باب الحيض،1 / 223، الناشر: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144501100971

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں