بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ایام حیض کا عادت سے بڑھ جانا


سوال

کسی عورت کی عادتِ حیض پانچ دن ہے اور ہمیشہ پانچ دن ہی آتا ہے،  لیکن کبھی کبھار  چھٹے دن بھی آگیا تو  چھٹے دن کے خون کا کیا حکم ہے؟

جواب

مذکورہ صورت میں جب کہ کسی عورت کی عادت ہر ماہ پانچ دن کی ہے اور کبھی کبھار پانچ دن کے بعد  چھٹے دن بھی خون آجاتاہے تو اس صورت میں پانچ دن سے زیادہ  آنے والا خون ابتدا سے  دس دن کے اندر اندر رک گیا تو یہ سمجھا جائے گا کہ اس عورت کی ماہواری کی عادت تبدیل ہوگئی ہے اور یہ تمام دن (چاہے چھ  ایام ہوں یا اس سے زیادہ دس دن کے اندر اندر تک) ماہواری کے شمار ہوں گے، اس صورت میں ان تمام دنوں کی نمازیں معاف ہوں گی۔

اور  اگر پانچ دن سے زیادہ آنے والا  خون  ابتدا سے دس دن سے بھی آگے بڑھ گیا تو پھر پانچ دن  تک ماہواری شمار ہوگی اور اس کے بعد کا خون استحاضہ کا شمار ہوگا اور ان بقیہ دنوں کی نمازیں فرض ہیں۔  استحاضہ کے دوران نماز کا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے وقت بدن اورکپڑوں کو پاک کرکے اس وقت کی فرض نماز  اور سنتیں  پڑھے اور اسی وضو کے ساتھ  وقت کے دوران نوافل وغیرہ بھی پڑھ سکتی ہے۔

قال في الدر:

"(وَالنَّاقِصُ) عَنْ أَقَلِّهِ  (وَالزَّائِدُ) عَلَى أَكْثَرِهِ أَوْ أَكْثَرِ النِّفَاسِ أَوْ عَلَى الْعَادَةِ وَجَاوَزَ أَكْثَرَهُمَا. (وَمَا تَرَاهُ) صَغِيرَةٌ دُونَ تِسْعٍ عَلَى الْمُعْتَمَدِ وَآيِسَةٌ عَلَى ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ (حَامِلٌ) وَلَوْ قَبْلَ خُرُوجِ أَكْثَرِ الْوَلَدِ (اسْتِحَاضَةٌ.)".

وفي الرد:

"(قَوْلُهُ: وَالزَّائِدُ عَلَى أَكْثَرِهِ) أَيْ فِي حَقِّ الْمُبْتَدَأَةِ، أَمَّا الْمُعْتَادَةُ فَمَا زَادَ عَلَى عَادَتِهَا وَيُجَاوِزُ الْعَشَرَةَ فِي الْحَيْضِ وَالْأَرْبَعِينَ فِي النِّفَاسِ يَكُونُ اسْتِحَاضَةً، كَمَا أَشَارَ إلَيْهِ بِقَوْلِهِ: أَوْ عَلَى الْعَادَةِ إلَخْ. أَمَّا إذَا لَمْ يَتَجَاوَزْ الْأَكْثَرَ فِيهِمَا، فَهُوَ انْتِقَالٌ لِلْعَادَةِ فِيهِمَا، فَيَكُونُ حَيْضًا وَنِفَاسًا، رَحْمَتِيٌّ". (الدر مع الرد : ١ / ٢٨٤-٢٨٥) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144108201640

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں