بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ایام حج میں منی میں قیام نہ کرنا


سوال

بعض حج گروپ والے اس طرح پیکچ دے رہے ہیں کہ وہ عزیزیہ میں رہائش دیں گے ،اور 8 ذوالحجہ کی رات کو یا 9 کی صبح کو عرفات لے جائیں گے ،8 تاریخ کو منی میں قیام نہیں کروائیں گے ،9 تاریخ کو وقوف عرفہ کے بعد مزدلفہ میں رات گذاریں گے اور 10 تاریخ کی صبح کو رمی وغیرہ کرواکر دوبارہ عزیزیہ میں رہائش دیں گے ۔اس پورے پیکچ میں منی میں قیام شامل نہیں ہوگا تاکہ حج کے اخراجات کم ہوسکیں ۔اب پوچھنا یہ ہے کہ :

1۔کیا اس طرح حج ادا ہوجائے گا ؟

2۔منی میں قیام  کی حیثیت کیا ہے ؟واجب ہے یا سنت ؟

3۔منی میں ارادۃ قیام کا چھوڑنا  کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایام حج کے  8 ذو الحجہ سے 12 ذوالحجہ تک  کل پانچ دن ہیں ،جس میں  8 ذوالحجہ کوسورج طلوع ہونے کے بعد   مکہ سے منی جاکر اوروہاں رات کا قیام ،پھر 10,11,12 ذو الحجہ کی راتوں میں منی میں قیام کرنا سنت مؤکدہ  ہے ،منی میں قیام کرنے کی بہت تاکید وارد ہوئی ہے،چنانچۃ روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کرام کے ساتھ منی میں قیام فرمایا اور 8 تاریخ کی ظہر ،عصر ،مغرب ،عشاء اور 9 تاریخ کی فجر  کی نماز میں منی میں  پڑھی ،پھر طلوع آفتاب کے بعد عرفہ کی طرف تشریف  لےگئے۔

 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  لوگوں کو زجروتوبیخ فرمایا کرتے تھے اس بات پر کہ منیٰ کا قیام کوئی چھوڑدے،یہاں تک فرماتے تھے کہ اس کا حج ہی نہیں ہوا ،یعنی حج کا کمال اس کو حاصل نہیں ہوا۔

اسی طرح حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ فرمایا  کرتے تھے: ایام تشریق میں عقبہ کے پیچھے (مکہ کی حدود میں) کوئی  رات نہ گزارے ۔فقہاء کرام میں سے امام  شافعی اور دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ  نے منی میں قیام کو واجب قرار دیا ہے ۔

حاصل یہ ہے کہ منی میں قیام  کی شرعا بہت تاکید وارد ہوئی ہے اور یہ سنت مؤکدہ ہے ، اردۃ ً اور قصدا ً منی  میں قیام ترک کرنا حاجی کے لئے مکروہ ہے ۔لہذا صورت مسئولہ میں :

1۔ اگر کسی نے حج کے ایام میں منی میں قیام کو ترک کیا تو اس کا حج تو ادا ہوجائے گا البتہ  خلاف سنت ہونے کی وجہ سےمکروہ ہوگا اور ثواب کم ملے گا۔

2۔فقہ حنفی میں منی کا قیام سنت مؤکدہ ہے ۔

3۔حاجی کے لئے منی کا قیام قصداً اورارادۃ چھوڑنا  خلاف سنت اور مکروہ ہے،حج گروپ والوں کا  اس طرح لوگوں کو پیکج دینا  بھی صحیح نہیں ہے کہ جس سے حج جیسی عظیم عبادت میں خلاف سنت امر کا ارتکاب لازم آئے ، جو زندگی میں ایک مرتبہ کرنا فرض ہے۔

وفي صحيح مسلم:

"عن ‌جعفر بن محمد ، عن ‌أبيه قال: « دخلنا على ‌جابر بن عبد الله ، فسأل عن القوم حتى انتهى إلي، فقلت: أنا محمد بن علي بن حسين فأهوى بيده إلى رأسي، فنزع زري الأعلى، ثم نزع زري الأسفل، ثم وضع كفه بين ثديي، وأنا يومئذ غلام شاب، فقال: مرحبا بك يا ابن أخي، سل عما شئت، فسألته وهو أعمى، وحضر وقت الصلاة، فقام في نساجة، ملتحفا بها، كلما وضعها على منكبه رجع طرفاها إليه من صغرها، ورداؤه إلى جنبه على المشجب، فصلى بنا، فقلت: أخبرني عن حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: بيده، فعقد تسعا، فقال...فلما كان يوم التروية توجهوا إلى ‌منى، فأهلوا بالحج، وركب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى بها الظهر والعصر والمغرب والعشاء والفجر، ثم مكث قليلا حتى طلعت الشمس."

(‌‌باب حجة النبي صلى الله عليه وسلم،4/ 39 ،ط:دار الطباعة العامرة - تركيا)

وفي فتح القدير للكمال ابن الهمام :

"ويكره أن لا يبيت بمنى ليالي الرمي لأن النبي - عليه الصلاة والسلام - بات بمنى، وعمر - رضي الله عنه - كان يؤدب على ترك المقام بها. ولو بات في غيرها متعمدا لا يلزم شيء عندناخلافا للشافعي.

(قوله خلافا للشافعي) فإنه واجب عنده ...أنه - عليه الصلاة والسلام - كان يبيت بمنى على ما قدمناه من حديث عائشة - رضي الله عنها - «أنه - عليه الصلاة والسلام - مكث بمنى ليالي أيام التشريق يرمي الجمرة إذا زالت الشمس» ونفس حديث العباس - رضي الله عنه - يفيده، وما ذكره المصنف من أن عمر - رضي الله عنه - كان يؤدب على ترك المبيت بمنى الله سبحانه أعلم به.

نعم أخرج ابن أبي شيبة عنه أنه كان ينهى أن يبيت أحد من وراء العقبة، وكان يأمرهم أن يدخلوا منى. وأخرج أيضا عن ابن عباس - رضي الله عنهما - نحوه. وأخرج أيضا عن ابن عمر - رضي الله عنهما - أنه كره أن ينام أحد أيام منى بمكة. وأخرج في تقديم الثقل عن الأعمش عن عمارة قال: عمر - رضي الله عنه -: من قدم ثقله من منى ليلة ينفر فلا حج له.

وقال أيضا: حدثنا وكيع عن شعبة عن الحكم عن إبراهيم عن عمرو بن شرحبيل عن عمر قال: من قدم ثقله قبل النفر فلا حج له اهـ: يعني الكمال."

 (‌‌كتاب الحج،باب الاحرام ،2/ 502،ط:دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما سننه) فطواف القدوم والرمل فيه أو في الطواف الفرض، والسعي بين الميلين الأخضرين، والبيتوتة بمنى في ليالي أيام النحر، والدفع من منى إلى عرفة بعد طلوع الشمس، ومن مزدلفة إلى منى قبلها كذا في فتح القدير. والبيتوتة بمزدلفة سنة والترتيب بين الجمار الثلاث سنة هكذا في البحر الرائق."

(کتاب المناسک باب اول ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۱۹،دار الفکر)

وفيه أيضا:

"ثم يعود إلى منى فيقيم بها لرمي الجمار في بقية الأيام ولا يبيت بمكة ولا في الطريق، كذا في غاية السروجي شرح الهداية ويكره أن يبيت في غير منى في أيام منى كذا في شرح الطحاوي فإن بات في غيرها متعمدا فلا شيء عليه عندنا، كذا في الهداية سواء كان من أهل السقاية أو غيره، كذا في السراج الوهاج. وعندنا لا خطبة في يوم النحر كذا في غاية السروجي شرح الهداية."

(کتاب المناسک، باب الخامس ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۳۲،دار الفکر)

"غنية الناسك في بغية المناسك" میں ہے:

"ويسن أن يبيت بمنى ليالي أيام الرمى ،فلو بات بغيرها متعمدا كره لاشيء عليه عندنا."

(باب طواف الزيارة، فصل في العود إلى منى وما ينبغي له الاعتناء به أيام قيامه بها، ص:179، ط:ادارة القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509102328

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں